کون کس کو مارتا ہے

ایک ارب بھارتی آبادی میں کسی کی ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ وادی میں آ کر پتہ لگائیں کہ جو لوگ دہشت گردی کی آڑ میں کیمیائی ہتھیاروں سے افراد خانہ سمیت گھروں میں جلائے جاتے ہیں اور پھر دوسرے روز ان کی کوئلہ بنی لاشوں کے فوٹو اٹھا کر دہشت پھیلائی جاتی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں ایک کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے بھارتی فوجی مندیپ سنگھ کی والدہ اور بھائی  13 اکتوبر 2021 کو بٹالہ سے تقریبا 20ً کلومیٹر دور چٹھہ گاؤں میں تدفین کی تقریب سے قبل تابوت لے کر جا رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


بھارت کے میڈیا نے ابھی چند روز پہلے جس طرح سے کشمیر میں تین ہندوؤں کے قتل پر شور مچایا، کاش اس طرح سے ان 25 کشمیری مسلمانوں کے قتل پر بھی آواز اٹھائی ہوتی تو ہر کشمیری کا سر ندامت سے جھک جاتا جو ویسے بھی پرتشدد حالات کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔

کسی شخص کی ہلاکت کی مذمت اگر مذہب کی بنیاد پر کی جاتی ہے تو کیا وہ مذہب صحیح ہے یا مذہب کے ٹھیکے داروں نے سیاست کی آڑ میں انسانیت کا قتل عام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ بھی اوچھے سیاسی ہتھکنڈوں سے جو آج کل بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی کھلے عام ہو رہے ہیں۔

آسام کی مثال کافی ہے کہ جہاں ایک نہتے شخص کو گولی مارنے کے بعد لاش پر چڑھ کر بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔

مجال ہے کہ بھارت کی اکثریت کا ایک فیصد حصہ بھی سڑکوں پر آیا ہو۔ کاش اپنی سرکار سے ہی پوچھتے کہ کیا اس غریب کا اتنا بڑا جرم تھا کہ پولیس نے گولی مار کر اسے ڈھیر کر دیا اور سرکاری فوٹوگرافر نے تصویر لینے کی بجائے اس کی لاش پر چڑھ کر مسلمانوں کے تئیں نفرت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

یقین رکھیے اس فوٹوگرافر کو جلد ہی اسمبلی یا پارلیمان کا رکن بننے کے لیے مینڈیٹ دیا جائے گا جیسا کہ چند برسوں سے روایت چلی آرہی ہے۔ اخلاق خان، پہلو خان، تبریز اور درجنوں افراد کی دل دہلانے والی داستان ہے، جن کی موت ہجوم کے تشدد کے ہاتھوں ہوئی۔

میں جانتی ہوں کہ آپ بھی ابھی وہ ویڈیوز بھولے نہیں ہوں گے جن کو جان بوجھ کر شوٹ کرکے وائرل کیا جاتا ہے تاکہ اقلیت کو بار بار یہ پیغام دیا جائے کہ اگر ’ہندو راشٹر‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کوئی بھی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تو سب کی باری آنے والی ہے۔

برصغیر کے بٹوارے کے وقت جب پاکستان نے اسلامی جمہوریہ بننے کا اعلان کیا تھا تو ہندوستان نے سیکولر بھارت بنانے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ مسلمانوں کو بانٹ دیا گیا مگر کوئی تو ہندوستانی رہنماؤں سے یہ پوچھے کہ سیکولر بھارت بنانے کی بجائے اسی وقت ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ ہندوستانی لیڈرشپ مضبوط تھی اور اس نے کسی دباؤ کے تحت سیکولر ملک نہیں بنایا یا پھر مسلمانوں کی بندر بانٹ کرنے کے لیے سیکولرازم کا یہ ڈراما رچایا گیا تھا جو اب سات دہائیوں کے بعد ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا 22 کروڑ مسلمان ہندو راشٹر میں خود کو محفوظ تصور کرسکتے ہیں جن کو ابھی سے دبانے، مذہب تبدیل کرنے یا کاروبار سے محروم کرنے کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

ذرا صبر سے کام لیں، یہی جشن عنقریب ان ہندوؤں کے لیے بھی شروع کیا جائےگا جو اقتصادی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں

اب رہا جموں و کشمیر، جہاں ایک کروڑ کی آبادی فوجی چھاؤنی میں خوف اور دہشت میں رہتی ہے، بات کرنے پر یو اے پی اے کا قانون لگا کر بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے، ہر چند میٹر کے فاصلے پر ہر شخص کا شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے، بعض مقامات پر تلاشی لیتے ہوئے برہنہ کیا جاتا ہے، رات کے دوران گھروں میں گھس کر عورتوں سے جنسی زیادتیاں کی جا رہی ہیں، انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس بشمول تمام ادارے بھارتی افسروں اور بی جے پی کے سرکردہ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہیں، اسی جگہ پر حالیہ چند مہینوں میں 25 مسلمانوں اور چار غیرمسلموں کا قتل ہوتا ہے تو کوئی سرکار سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ اتنی سکیورٹی کے ہوتے ہوئے کیا مسلمانوں کے لیے ممکن ہے کہ وہ دن دہاڑے سڑک پر آکر گول گپے والے بہاری کو، بنکر کے سامنے اقبال پارک میں کیمسٹ بندرو کو اور عید گاہ میں سکھ ٹیچر کو ہلاک کرنے کے اہل ہیں؟

مسلمان ہر طرح سے بے اختیار کر دیئے گئے ہیں، جن کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں، جن کے مکانات بارود سے اڑائے جا رہے ہیں، جن کو روزگار سے محروم کردیا گیا ہے اور دن رات این آئی اے کے سینکڑوں چھاپوں سے بے یارو مددگار کر دیا گیا ہے، جو اس وقت صرف اپنی زندگی کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ وہ کیا اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ وہ کسی اور کو قاتلوں سے بچائیں جبکہ وہ خود ہر روز چار پانچ کے حساب سے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔

ایک ارب بھارتی آبادی میں کسی کی ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ وادی میں آکر پتہ لگائیں کہ جو لوگ دہشت گردی کی آڑ میں کیمیائی ہتھیاروں سے افراد خانہ سمیت گھروں میں جلائے جاتے ہیں اور پھر دوسرے روز ان کی کوئلہ بنی لاشوں کے فوٹو اٹھا کر دہشت پھیلائی جاتی ہے۔ کیا وہ دوسروں کو نشانہ بنانے کی جرات کرسکتے ہیں، کیا کشمیر میں انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی دھجیاں نہیں اڑائی جا رہیں ہیں، جن کی شقیں بھارتی آئین میں ابھی تک موجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوئی حکومت سے یہ پوچھنے کی جسارت کیوں نہیں کر رہا کہ لکھمی پور خیری میں آٹھ سکھوں اور ہندوؤں کو وزیر داخلہ کے بیٹے نے گاڑی چڑھا کر روند ڈالا۔ پھر اس واقعے کی تحقیقات بھی اسی وزیر کی نگرانی میں ہوئیں، جس نے بیٹے کو چھپا کر کہیں رکھ دیا تھا، اگر سپریم کورٹ وقت پر نہیں جاگتی۔ وزیر صاحب اپنی کرسی پر نہ صرف براجمان ہیں بلکہ انسانی حقوق پر بھاشن دینے کے لیے کئی اجلاسوں میں دیکھے گئے ہیں۔

کشمیری اکثر سوشل میڈیا پر گلہ کرتے ہیں کہ بھارت کے اکثر لوگ ان پر جاری ظلم و تشدد پر جشن کیوں مناتے ہیں، ان سے کہنا چاہیے کہ جب ایسے ہی پروگرام ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں بھی شروع کیے جائیں گے تو انہیں خود ان حالات کا احساس ہوگا۔

ذرا صبر سے کام لیں، یہی جشن عنقریب ان ہندوؤں کے لیے بھی شروع کیا جائےگا جو اقتصادی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں، روزگار سے محروم ہیں، دوا کے لیے پیسے نہیں ہیں اور ہندوتوا کی روٹیاں اب بھوک بھی نہیں مٹاتی ہیں۔

معروف طلبہ لیڈر کنہیا کمار نے حال ہی میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ بھارتی عوام کے پاس دو ہی آپشنز ہیں، بھگت سنگھ یا ویر سوارکر؟ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔ اب یہ بھارت کے عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس کا انتخاب کریں گے تاکہ ملک کے مستقبل کا سیاسی نقشہ واضح ہوسکے۔

موجودہ پرتشدد حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیرجانبدار کمیشن قائم کرکے ہر اس ہلاکت کی جانچ کرے جو جموں و کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں سے ہو رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی شبیہ اس وقت تار تار ہوتی ہے، جب وہ مذمت کرنے کی ایک مخصوص سوچ کا انتخاب کرتے ہیں۔

کشمیری قوم کو بھی اس دن کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس وقت سب سے بڑی ترجیح اپنی زندگی کو بچانا ہے، اپنے آس پاس رہنے والی ان اقلیتوں کو بھروسہ دلانا ہے جو سیاست کے ٹھیکے داروں کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بنتی جا رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ