افغان مذاکرات: روس کی دعوت پر بھارت شرکت پر راضی

20 اکتوبر کو افغانستان کی صورت حال پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات کی دعوت طالبان کو بھی دی گئی ہے اور اب وہ ممکنہ طور پر بھارت کے روبرو ہوں گے۔

پانچ ستمبر 2019 کو روس  میں  ایسٹرن اکنامک فورم کے افتتاحی سیشن میں روسی صدر  ولادی میر پوتن  (دائیں) اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی (بائیں) مصافحہ کرتے ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

افغان طالبان کے ملک پر کنٹرول کے بعد بھارت نے ماسکو میں 20 اکتوبر کو افغانستان کی صورت حال پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں روس کی دعوت قبول کرلی ہے۔

بھارتی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق دو ماہ قبل اقتدار حاصل کرنے والے طالبان کو بھی ان مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے اور اب وہ ممکنہ طور پر بھارت کے روبرو ہوں گے۔

طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد نئی دہلی نے افغانستان سے اپنے سفارتی عملے کو نکال لیا تھا۔

بھارت کی ماسکو مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا: ’ہمیں 20 اکتوبر کو ماسکو فارمیٹ کے اجلاس کے لیے ایک دعوت ملی ہے۔ ہم اس میں شرکت کریں گے۔‘

رپورٹ کے مطابق امکان ہے کہ بھارت اپنی وزارت خارجہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کو اجلاس میں بھیجے گا، تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

گذشتہ ہفتے روسی صدر ولادی میر پوتن کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے کہا تھا کہ ماسکو نے طالبان کے نمائندوں کو 20 اکتوبر کو افغانستان پر بین الاقوامی مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

یہ مذاکرات افغانستان کے بارے میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے بعد ہو رہے ہیں، جس میں افغانستان میں ممکنہ انسانی بحران سے نمٹنے پر غور کیا گیا۔

قطر میں بھارت کے سفیر دیپک متل نے بھی اگست کے آخر میں دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی اور ماسکو میں ہونے والی یہ ملاقات بھارتیوں کی طالبان کے ساتھ دوسری دو بدو ملاقات ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جہاں طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں، وہیں دوسری جانب بھارت طالبان کے ساتھ رابطے قائم رکھنے پر ہجکچاہٹ کا شکار ہے۔

روس نے اس سے قبل اشارہ دیا تھا کہ بھارت افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد کردار ادا کر سکتا ہے۔

اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بھارت نے نئی افغان حکومت میں تمام طبقات کی عدم شمولیت، اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے حقوق پر سوالات اٹھائے ہیں اور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

رواں سال مارچ میں بھی ماسکو نے افغانستان کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی تھی، جس میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں افغان فریقوں پر زور دیا گیا کہ وہ امن معاہدے پر پہنچیں۔

لیکن جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان سے 20 سال بعد اپنی فوجیں واپس بلانا شروع کیں تو طالبان نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، جو اشرف غنی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔

روس وسیع خطے میں ان نئے اثرات کے بارے میں فکر مند ہے اور اس نے طالبان سے رابطوں کے باوجود ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ دیگر مغربی ممالک کے برعکس روس نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بھی بند نہیں کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا