عورت، انسانی تہذیب کی بانی

اگر تاریخ کو سیاسی اُتار چڑھاؤ، اقتدار کی ہوس اور سازشوں سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو اس میں عورت کا کردار مردوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت نظر آئے گا۔

تہذیب کی ترقی میں عورتوں کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے میں خوبصورتی اور نفاست کا احساس پیدا کیا(تصویر پکسا بے) 

انسانی تاریخ میں سنسنی خیز واقعات کی تفصیل کی وجہ سے مورخ زیادہ تر سیاست، جنگ و جدل اور حکمران خاندانوں کی تبدیلی پر توجہ دیتے تھے۔

انسانی تہذیب کے ارتقا میں عورتوں نے جو کردار ادا کیا اسے پدرسری کے استحکام کے بعد نظر انداز کر دیا گیا اور انسانی تاریخ مردوں کی ہو گئی، لیکن اب جب تاریخ کو نئے سرے سے لکھا جا رہا ہے اور تاریخ کے وہ ماخذ استعمال کیے جا رہے ہیں جنہیں اب تک فراموش کر دیا گیا تھا، عورتوں کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں اور تہذیب کی تشکیل میں ان کے حصے کو سامنے لایا جا رہا ہے۔

تاریخ کے ابتدائی دورمیں جبکہ مرد غذا کے حصول کے لیے شکار کرتا تھا۔ عورتیں پھلوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش میں رہتی تھیں۔

اس عمل میں انہوں نے خودرو جڑی بوٹیوں کے بارے میں بہت علم حاصل کیا کہ کون سی کھانے کے قابل ہیں اور کون سی بیماریوں اور زخموں کے علاج کے لیے ضروری ہیں۔

عورتوں کا جڑی بوٹیوں کے بارے میں یہ علم نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا ہمارے زمانے تک آیا اور آج بھی گاؤں، دیہاتوں اور قصبوں میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے کہ زراعت کی دریافت بھی عورت ہی کی ہے۔ اس نے لکڑی کے ذریعے زمین کھود کر ان میں بیج ڈالے جو پودوں کی شکل میں سامنے آئے۔

جب زراعتی معاشرہ شروع ہوا تو اسی تجربے کو بڑے کھیتوں میں استعمال کرکے فصلیں تیار کیں۔ یہ کام بھی عورتوں کا تھا کہ وہ اناج کے ذخیرے کو محفوظ رکھتی تھیں۔

عورتوں کا دوسرا اہم کام مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ دودھ دھونا اور پھر دودھ سے دہی، مکھن اور پنیر بنانا بھی انہی کے دماغ کی اختراع تھی۔

 میسوپوٹامیہ کی تہذیب میں پنیر کا استعمال کافی مقبول تھا اور اسے بطور نظر دیوی انانہ کو مندر میں پیش کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھریلو زندگی اختیار کرنے کے بعد عورت کے لیے یہ بھی لازمی ہو گیا تھا کہ وہ مختلف قسم کے کھانے پکائے، کھانوں میں گوشت اور سبزی دونوں کا استعمال ہوتا تھا۔

ان کو ذائقے دار بنانے کے لیے مصالحوں کا استعمال بھی شروع ہو گیا تھا اور گھروں میں دعوتیں بھی ہونے لگی تھیں، جہاں اہل خاندان اور دوست جمع ہو کر کھانے میں شریک ہوتے تھے۔

جب ہم عورت کی روز مرہ کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں فرصت کے لمحات کم ہی نظر آتے ہیں۔

یہ بھی اس کا کام تھا کہ دوسرے کاموں سے فرصت پاکر کپڑے بھی بنا کرتی تھی اور کپڑا بننے کی اس تیاری میں کپاس سے دھاگہ بنانا اور پھر دھاگوں کے ذریعے لباس تیار کرنا ایک مشکل کام تھا جو بعد میں پیشہ ور جولاہوں کے پاس آیا۔

آثارِ قدمہ کے ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں روز مرہ کے اوزار اور مٹی کے برتن بنانے میں بھی مردوں کی مدد کرتی تھیں۔

عورتوں کی وجہ سے شادی بیاہ کی رسومات اور تہواروں میں رنگینی آ جاتی تھی۔ ان موقعوں پر وہ گیت گاتی تھیں اور رقص کرتی تھیں۔

خاص طور سے مندروں میں دیوی، دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مذہبی نغمے، گیت، بھجن اور ان کا رقص مندر میں آنے والے لوگوں کو مسحور کر دیتا تھا اور کئی تبدیلیوں میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو دیوی یا دیوتا کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ دیو دیو داسیاں کہلاتی تھیں۔

تہذیب کی ترقی میں عورتوں کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے میں خوبصورتی اور نفاست کا احساس پیدا کیا۔ مثلاً برتنوں پر نقش و نگار بنا کر انہیں خوبصورت بنایا، گھروں کو بھی سلیقے سے ترتیب دیا تاکہ محنت کے بعد گھر میں سکون اور آرام مل سکے۔

عورتوں نے تجارت کے فروغ میں بھی حصہ لیا۔ جب ان کے شوہر کاروبار کے سلسلے میں دور دراز ملکوں میں چلے جاتے تھے تو عورتیں نہ صرف گھر کا انتظام اور دیکھ بھال اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو دیکھتی تھیں بلکہ اپنے شوہر سے خط و کتابت کے ذریعے رابطے میں رہتی تھیں اور اس کی ضرورت کے مطابق اسے تجارتی مال بھی سپلائی کرتی تھیں۔

اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ عورتیں کاریگری کے کچھ پیشوں میں مہارت رکھتی تھیں اور ضرورت کی اشیا تیار کر کے اپنی آمدنی کو بڑھاتی تھیں۔

جب ریاست کا ادارہ وجود میں آیا تو حکمران طبقے نے فوجی طاقت کے ذریعے اپنی حاکمیت قائم کر لی۔ اپنی سلطنت کی حدود کو بڑھانے اور مال غنیمت کے حصول کے لیے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

عورتیں ذہنی طور پر جنگوں کے خلاف تھیں، کیونکہ یہ ان کی روز مرہ کی پرامن زندگی کو متاثر کرتی تھیں، کیونکہ ان کے بیٹے اور شوہر جنگ کے لیے چلے جاتے تھے اور ان کی واپسی کی موہوم امید رہتی تھی، کیونکہ فتح اور شکست دونوں صورتوں میں ان کی خاندانی زندگی پر اثر ہوتا تھا۔ انہوں نے جن تہذیبی روایات کو تشکیل دیا تھا جنگ اور خونریزی اسے تباہ و برباد کر دیتی تھی۔

قدیم عہد کی داستانوں میں عورت اور مرد کے درمیان محبت کے تذکرے ہیں، اگرچہ یہ داستانیں مردوں کی لکھی ہوتی ہیں مگر ان میں عورت کا کردار ساکن یا خاموش نہیں بلکہ رومان پرور ہے۔

ان میں وہ پدرسری معاشرے کی روایات کو چیلنج کرتی ہے اور اپنی ذات اور شخصیت کو آزادانہ اور خود مختار بنا کر پیش کرتی ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مادرسری کی روایات اگر معاشرے میں کمزور ہو گئی تھیں تو یہ داستانوں میں تازہ اور زندہ رہیں۔

اگر تاریخ کو سیاسی اُتار چڑھاؤ، اقتدار کی ہوس اور سازشوں سے بالاتر ہو کر اس کے سماجی اور تہذیبی ارتقا کو دیکھا جائے تو اس میں عورت کا کردار مردوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت نظر آئے گا، کیونکہ اس نے ان روایات کو پیدا کیا اور انہیں ترقی دی جس کا تعلق آج بھی ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے۔ یعنی ذائقے دار خوراک، زیورات کا استعمال، رنگوں کی خوبصورتی، فیشن ایبل لباس، گیت اور رقص اور گھریلو معاملات میں سلیقہ مندی۔

یہ سب عورت کے تہذیبی عمل کا حصہ ہیں اور عورتوں کے اس پہلو کو تاریخ میں لانے کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین