وائکنگز کولمبس سے 500 سال قبل امریکہ پہنچے: تحقیق

مانا جاتا ہے کہ لیف ایرکسن نامی آئس لینڈ کے مہم جو، جو ایرک دی ریڈ کے تین بیٹوں میں سے دوسرے نمبر پر تھے، وہ شمالی امریکہ پہنچنے والے پہلے شخص ہیں۔

پانچ اگست 2007 کی اس تصویر میں شمال مغربی سپین کے شہریوں کو دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ ایک ہزار سال قبل اس علاقے میں آنے والے وائکنگز کا روپ دھارے ہوئے ہیں(اے ایف پی فائل)

ایک نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1021 عیسوی وہ قدیم ترین تاریخ ہے جس پر امریکی خطے میں کسی یورپین کی موجودگی کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔

مہم جو کرسٹوفر کولمبس کے سر برس ہا برس سے امریکہ کو 1492 میں دریافت کرنے کا سہرا باندھا جاتا رہا ہے۔

مگرمورخین کے مطابق نورڈک مہم جوئی کرنے والے کولمبس سے 500 سال قبل ہی امریکہ پہنچ چکے تھے۔

مانا جاتا ہے کہ لیف ایرکسن نامی آئس لینڈ کے مہم جو، جو ایرک دی ریڈ کے تین بیٹوں میں سے دوسرے نمبر پر تھے، وہ شمالی امریکہ پہنچنے والے پہلے شخص ہیں۔

بین الاقوامی ریسرچرز کی ٹیم کی ایک تحیق میں دعویٰ کیا گیا کہ اس وقت کی درست تاریخ 1021 عیسوی ہے۔

محققین نے جریدے نیچر میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں کہا ہے کہ وائکنگز کا ایل اینس آکس میڈوز جو کہ نیوفاونڈ لینڈ، کینیڈا میں ہے اور اس کا تعلق ایریکسن سے جوڑا جاتا ہے۔ اس کے جنگلات کو کاٹنے کا واقعہ حقیقتاً 1021 عیسوی کا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا ان جنگلات کے درختوں کی تین اقسام کی لکڑی کو جب جانچا گیا تو پتا چلا کہ تینوں کے تانے بانے وائکنگز سے جا ملتے ہیں۔

ہر لکڑی کے ٹکڑے کو ایسے دھات کے بنے بلیڈ سے کاٹے جانے کے ’واضح ثبوت‘ موجود ہیں جو مقامی لوگ بنانے سے قاصر تھے۔

اس واقعے کا درست سال کا تعین اس بات سے کیا گیا تھا کہ ایک بہت بڑا شمسی طوفان 992 عیسوی میں آیا تھا جس کی وجہ سے ایک خاص ریڈیو کاربن سگنل درختوں کی رنگز میں اگلے سال پایا گیا تھا۔

ہالینڈ کی یونیورسٹی آف گروننجین کے ریسرچ ڈائریکٹر ایسوسی ایٹ پروفیسر مائیکل ڈی نے کہا، ’992 اور 993 عیسوی کے دوران دنیا بھر کے ٹری رنگ آرکائیوز میں ریڈیوکاربن کی پیداوار میں ایک خاص اضافہ دیکھا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تینوں درختوں کی لکڑی میں یہ سگنل چھال کے کنارے سے پہلے 29 گروتھ رنگز پر دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف گروننجین کے ڈاکٹر مارگٹ کوئٹمز کا کہنا تھا کہ ’درخت کی چھال میں 29 گروتھ رنگز اندر سے ملے شمسی طوفان کے سگنل سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کٹائی کا کام سال 1021 عیسوی میں ہوا تھا۔‘

ری سرچرز کا کہنا ہے کہ وائکنگز کی امریکی خطے میں مہمات اور رہائش کا دورانیہ ابھی تک پتا نہیں چل سکا۔

اس سارے مواد سے معلوم ہوا کہ یہ ساری مہم ’کچھ مختصر دورانیے‘ کی تھی اور امریکہ میں پہلی یورپی مہم کی موحولیاتی اور ثقافتی میراث بہت مختصر رہی۔

ایل اینس آکس میڈوز کے بوٹینیکل شواہد سے معلوم ہوا کہ وائکنگز نے نیو فاونڈلینڈ سے جنوب کی جانب پیش رفت بھی کی تھی۔

ڈاکٹر کوئٹمز کے بقول، ’1021 عیسوی سب سے پہلا سال ہے جس میں  امریکہ میں یورپی موجودگی کو سائنسی بنیاد پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔‘

’وائکنگز کی امریکی خطے میں موجودگی کی قدیم تاریخ ہمیشہ سے آئس لینڈ کی لوک کہانیوں سے اخذ کی گئیں ہیں۔ ان کہانیوں کی شروعات زبانی طور پر ہوئی اور ان واقعات کو ان کے پیش آنے کے صدیوں بعد لکھا گیا۔‘

’اگرچہ بیشتر اوقات متضادم اور تصوراتی طرزکی یہ کہانیاں یورپیوں اور مقامی لوگوں کے بیچ، کبھی پرتشدد اور کبھی دوستانہ طرز کے،  ملنے جلنے کے واقعات کا ذکر کرتی ہیں۔‘

’مگر ایسے  کوئی خاص آثار قدیمہ کے ثبوت نہیں ملے جو ان واقعات کی تصدیق کرسکیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دوسری قرون وسطی کی روایات کے مطابق یہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ یورپی مین لینڈ کی اہم شخصیات کو بتایا گیا تھا کہ وائکنگز بحر اوقیانوس کے پار پہنچ گئے ہیں۔‘

 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق