تحریک لبیک کا اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان، لاہور میں انٹرنیٹ بند

پاکستان میں مذہبی جماعت کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اس کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے لیے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔

پاکستان میں مذہبی جماعت کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے تین روز کے دھرنے کے بعد اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد لاہور کی انتظامیہ نے شہر بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔

یہ اعلان ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن جمعرات (21 اکتوبر) شام پانچ بجے ختم ہونے کے بعد لاہور احتجاجی دھرنے میں موجود جماعت کی قیادت نے کیا ہے۔

اسلام آباد کی جانب سے مارچ کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ ہم نے آئندہ لائحہ عمل کے اعلان کا کہنا تھا تو ہم حاضر ہیں اگلے اعلان کے لیے۔‘

انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’22 اکتوبر کو نماز جمعہ کے بعد تحریک لبیک کا ناموس رسالت مارچ لاہور سے شروع ہو گا اور اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگا۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا تین دن سے لاہور میں دھرنا جاری ہے اور انتظامیہ نے ملتان روڈ پر جماعت کے مرکز کے گرد آنے جانے والے راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ نے دھرنے کے مقام اور ارد گرد کے علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے جبکہ مارکیٹس اور کمرشل سینٹرز بھی بند کرا دیے گئے ہیں۔

پولیس نے اورنج لائن ٹرین انتظامیہ کی درخواست پر ٹی ایل پی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف توڑ پھوڑ اور اسلحے کے زور پر عملے کو یرغمال بنانے اور آگ لگانے کی مبینہ دھمکیوں کا مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔

تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں نے الـزام لگایا ہے کہ دیگر شہروں سے لاہور آنے والے کارکنان کو روکا جا رہا ہے جبکہ بدھ کی رات راولپنڈی اور لاہور سے سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سعد رضوی کی رہائی میں روکاوٹیں کیا ہیں؟

تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کو ڈی سی لاہور کے احکامات پر 12 اپریل کو لاہور سے ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپسی پر حراست میں لیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لیے ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے عمل میں لائی گئی تھی۔

سعد رضوی کو 90، 90 روز کے لیے دو بار نظر بند کیا گیا جا چکا ہے۔ ان کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا جس پر عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد یکم اکتوبر کو انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

سعد رضوی کے وکیل برہان معظم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حکم کے بعد جب کوٹ لکھپت سے ان کی رہائی کے لیے انتظامیہ سے رجوع کیا گیا تو اس دوران انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا تھا۔

ان کے بقول دو کروڑ روپے مالیت کے مچلکے بھی جمع کرائے گئے تاہم پولیس نے مچلکے لینے سے انکار کر دیا اور اب بھی اسی بنیاد پر سعد رضوی کو بند کر رکھا ہے۔

اسی دوران دو اکتوبر کو وفاقی نظرثانی بورڈ نے سعد رضوی کو ایک ماہ کے لیے مزید نظر بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، کیونکہ ڈی سی لاہور نے 28 ستمبر کو انہیں نیا ریفرنس بھجوا دیا تھا۔

برہان معظم کے مطابق ’اس نوٹیفکیشن کو ہم نے وفاقی نظرثانی بورڈ میں ہی چیلنج کیا کہ جب لاہور ہائی کورٹ یکم اکتوبر کو ان کی نظر بندی کالعدم قرار دے چکی ہے تو ڈی سی نے وفاقی نظرثانی بورڈ کو آگاہ کیوں نہیں کیا اور نیا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جو غیر آئینی ہے۔‘

’جس پر پنجاب حکومت نے 13 اکتوبر کو ڈی سی لاہور کے ذریعہ 28 ستمبر کو دائر ریفرنس واپس لے لیا اور وفاقی نظرثانی بورڈ نے حکم دیا کہ سعد رضوی پر کوئی اور کیس نہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔‘

برہان معظم نے بتایا کہ دو دن بعد پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سعد رضوی کی نظربندی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور عدالت عظمیٰ نے پچھلے ہفتے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور دو رکنی بینچ تشکیل دے کر اس کیس کی سماعت کرنے کا حکم دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق تاحال دو رکنی بینچ تشکیل نہیں دیا جا سکا ہے جبکہ پنجاب حکومت نے وفاقی نظرثانی بورڈ کو ایک اور ریفرنس بھجوا دیا ہے کہ سعد رضوی کی نظر بندی منظور کی جائے جس پر سماعت 23 اکتوبر کو ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں حکومت ٹی ایل پی سے مذاکرات میں ان کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کرتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح کر دیا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطلب پورے یورپ سے تعلقات خراب کرنا ہے، ’یہ مطالبہ تسلیم نہیں کر سکتے اور اگر کوئی پرامن رہے گا تو ٹھیک، قانون ہاتھ میں لیا تو سخت کارروائی کریں گے۔‘

کیا ٹی ایل پی کا مطالبہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے سعد رضوی کی رہائی تک آگیا ہے؟

تحریک لبیک کے رہنماؤں نے منگل کو لاہور میں جشن میلادالنبی ریلی نکالی اور شام کو اسے دھرنے میں تبدیل کردیا گیا جو تاحال جاری ہے۔

ٹی ایل پی ترجمان صدام حسین بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ وہ 14 دن تک سعد رضوی کی رہائی کے لیے پرامن طور پر سڑکوں پر بینرز لے کر احتجاج ریکارڈ کراتے رہے، عدالتوں سے بھی رجوع کیا اور عدالت نے جب سعد رضوی کی رہائی کا حکم دے دیا تو حکومت اب انہیں رہا کیوں نہیں کرتی؟

انہوں نے سوال کیا کہ ’ہمارا بنیادی مطالبہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا ہی ہے اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تھی تو تحریری معاہدہ کیوں کیا تھا؟‘

’اگر وزیر داخلہ شیخ رشید کو معلوم تھا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے یورپ سے تعلقات خراب ہوں گے تو معاہدے پر دستخط کیوں کیے تھے؟ اس تحریری معاہدے پر وزیر اعظم کی بھی رائے شامل تھی۔‘

احتجاجی دھرنے کے حوالے سے صدام حسین بخاری کا کہنا تھا کہ ’احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے جو کوئی نہیں چھین سکتا لیکن اگر انصاف کے تمام دروازے بند کیے جائیں گے تو ہم کہاں جائیں کس سے انصاف مانگیں؟‘

’ہمارے کارکن پہلے بھی پرامن تھے، سعد رضوی کو گرفتار کر کے حکومت نے حالات خود خراب کیے اور اب بھی پرامن ہیں لیکن حکومت خود غیر قانونی طور پر سعد رضوی کو جیل میں بند رکھنے پر بضد ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بھی آئینی اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تین دن میں ہزاروں کارکن ملتان روڑ پر جمع ہیں کسی نے ایک پتہ نہیں ہلایا جبکہ حکومت کی جانب سے راستے بند، موبائل سروس بند، دوکانیں بند اور کارکنان کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ ٹی ایل پی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔

’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ دباؤ بڑھا کر حکومت کو بلیک میل کر کے غیر قانونی مطالبات تسلیم کرالے گا، وہ غلط فہمی میں ہیں، حکومت کسی صورت شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں سے بلیک میل نہیں ہوگی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست