گوانتانامو میں پاکستانی نژاد قیدی کو 26 سال کی سزا سنا دی گئی

القاعدہ کی معاونت کے الزام میں قید پاکستانی نژاد ماجد خان نے نائن الیون کے بعد پکڑے جانے والے قیدیوں کے ساتھ ہونے والے امریکی تشدد کی تفصیلات پہلی بار کسی عدالت میں سنائی ہیں۔

غیر سرکاری ادارے سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس کی جانب سے 2018 میں فراہم کردہ تصویر میں ماجد خان نظر آرہے ہیں، جنہوں نےسی آئی اے کے تشدد کی تفصیلات عدالت میں بتائی ہیں (فوٹو: سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس/ اے پی)

بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتانامو بے میں قید پاکستانی نژاد امریکی شہری ماجد خان کو ایک فوجی جیوری نے جنگی جرائم کے مقدمے میں 26 سال کی قید کی سزا سنا دی ہے۔

گوانتانامو میں فوجی کمیشن کے ترجمان کے مطابق ماجدکو جمعے کو سزا کے تعین کے لیے جاری سماعت کے دوسرے روز 20 سال قید سنائی گئی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماجد نے نائن الیون کے بعد گوانتانامو  میں قید کیے جانے والوں کے ساتھ ہونے والے امریکی تشدد کی تفصیلات پہلی بار کسی عدالت میں سنائی ہیں۔

جمعرات کو سماعت کے پہلے دن انہوں نے 39 صفحات کا ایک بیان عدالت میں جیوری کو پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ پر تشدد تفتیش کے دوران انہیں کئی دنوں تک برہنہ لٹایا جاتا تھا، سونے نہیں دیا جاتا تھا، بھوکا رکھا جاتا تھا، مارا جاتا تھا، جنسی تشدد کیا جاتا اور سر پانی میں ڈال کر ڈوبنے کے قریب لے جایا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماجد دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے لیے پیغام رساں کا کام کرتے تھے۔ انہیں مارچ 2003 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ ان پر تنظیم کے کئی منصوبوں میں معاونت فراہم کرنے کے الزامات ہیں جن میں پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے قتل کی منصوبہ بندی میں شامل ہونےکا الزام بھی شامل ہے۔ انہوں نے 2012 میں خود پر عائد الزامات کو قبول کیا تھا اور حکام سے تعاون پر راضی ہوئے تھے۔

حکام سے اس معاہدے کے تحت ان کی سزا میں کمی ہو سکتی ہے اور انہیں اگلے سال رہائی بھی مل سکتی ہے کیونکہ وہ 19 سالوں سے امریکی قید میں ہیں۔

ان کی سزا کا اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جن ایک دن قبل ہی انہوں نے فوجی عدالتی کمیشن کے سامنے خود پر تین سال تک ہونے والے تشدد کی تفصیلات بتائیں۔ اس طرح کی گواہی کی اس پہلے کسی فوجی کمشین میں اجازت نہیں تھی۔

انہیں حکام کے ساتھ معاہدے کے بدلے میں گواہی دینے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے عدالت میں بتایا کہ وہ پہلے دن سے ہی تعاون کر رہے تھے مگر وہ جتنا بھی تعاون کرتے ان پر ’اور بھی زیادہ تشدد کیا جاتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2002 میں پاکستان میں دلہن کی تلاش میں آئے تھے کہ القاعدہ سے جڑے رشتہ داروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع ہوگیا اور وہ اسی طرح شدت پسندی کی طرف آگئے۔

انہوں نے اپنے کیے کہ ذمہ داری قبول کی اور معافی  مانگی۔ ان کے بقول القاعدہ کا حصہ بننا ’اچھا فیصلہ نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ اپنے ساتھ تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی خیال نہیں رکھتے اور انہیں معاف کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ