’برہنہ لٹکایا، بھوکا رکھا گیا‘: گونتاناموبے کا پاکستانی نژاد قیدی

القاعدہ کے لیے پیغام رساں کا کام کرنے والے ماجد خان نے ایک امریکی عدالت میں پہلی بار دی گئی گواہی میں اس تشدد کی تفصیلات بتائی ہیں جو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے قیدیوں پر کرتی آئی ہے۔

غیر سرکاری ادارے سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس کی جانب سے 2018 میں فراہم کردہ تصویر میں ماجد خان نظر آرہے ہیں، جنہوں نےسی آئی اے کے تشدد کی تفصیلات عدالت میں بتائی ہیں (فوٹو: سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس/ اے پی)

بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے کے ایک پاکستانی نژاد قیدی نے عدالت میں پہلی بار امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی تشدد کی اُن تکنیکوں کو کھلے عام بیان کیا ہے، جو نائن الیون کے حملوں کے بعد گرفتار کیے گئے افراد پر استعمال کی گئیں اور جنہیں سی آئی اے خفیہ ہی رکھنا چاہتی ہے۔

امریکی شہر بالٹی مور کے سابق رہائشی ماجد خان، جو شدت پسند تنظم القاعدہ کے لیے پیغام رساں بنے اور پکڑے جانے کے بعد حکومت کے ظالمانہ تفتیشی پروگرام سے گزرے، نے جمعرات کو ایک عدالت کو بتایا کہ سی آئی اے کی ٹارچر تکنیکوں نے ان پر ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ خودفزہ رہنے لگے اور انہیں ہیلوسینیشن ہونے لگی یعنی مختلف شکلیں دکھائی دینے اور آوازیں سنائی دینے لگیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ماجد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں سزا مقرر کرنے کے لیے سماعت کے دوران انہوں نے جیوری کے ارکان کو تفصیل سے بتایا کہ کیسے ان پر سی آئی اے کی خفیہ جیلوں، جنہیں ’بلیک سائٹس‘ کہا جاتا ہے، میں کئی دن تک تشدد جاری رہا اور تفیش کار ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔

یہ پہلی بار تھا کہ کیوبا میں قائم امریکی بیس میں رکھے گئے کسی ہائی پروفائل قیدی کو اس طرح کھلی عدالت میں خود پر ہونے والے تشدد کے بارے میں گواہی دینے کا موقع ملا ہو۔ امریکہ اسے ’تفیش کا بہتر‘ طریقہ کہتا ہے، مگر زیادہ تر دنیا میں اسے تشدد ہی تصور کیا جاتا ہے۔

41 سالہ ماجد خان نے عدالت میں کہا: ’مجھے لگا میں مر جاؤں گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہیں چھت سے کئی دنوں تک برہنہ لٹکایا گیا اور کئی دنوں تک جگائے رکھنے کے لیے بار بار برف والا پانی پھینکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا سر پانی میں ڈبوئے رکھا گیا یہاں تک کہ وہ ڈوبنے کے قریب پہنچ گئے اور پھر سر باہر نکالتے ہی تفتیش کار ان کے منہ اور ناک میں مزید پانی ڈال دیا کرتے تھے۔ ماجد کو مارا گیا، کئی بار زبردستی انیما (پیٹ خالی کرنے کی دوا) دیا گیا، جنسی تشدد کیا گیا اور بھوکا رکھا گیا اور یہ سب کچھ ایسی بیرون ملک جیلوں میں ہوا، جن کا پتہ خفیہ رکھا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا: ’میں ان سے التجا کرتا رہا کہ رک جائیں اور قسمیں کھائیں کہ مجھے کچھ نہیں پتہ۔ اگر میرے پاس کوئی معلومات ہوتیں تو میں پہلے ہی دے چکا ہوتا، میرے پاس اور کچھ نہیں تھا۔‘

ان کے خلاف مقدمے میں سزا تعین کرنے سے متعلق عدالت کی سماعت گوانتاناموبے میں دو دن تک جاری رہے گی۔ جمعرات کو سماعت کے پہلے روز انہوں نے اپنی گواہی 39 صفحات پر مشتمل ایک بیان سے پڑھ کر سنائی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے فورٹ میڈ، میری لینڈ میں ویڈیو فیڈ کے ذریعے یہ سماعت سنی۔

فوجی افسران کا ایک پینل، جسے کنویننگ اتھارٹی کہتے ہیں، انہیں 25 سے 40 سال تک کی قید سنا سکتا ہے، مگر ممکنہ طور پر ہوسکتا ہے کہ انہیں اس سے کم ہی وقت جیل میں گزارنا پڑے کیونکہ انہوں نے حکام سے کافی تعاون کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکام سے کیے گئے معاہدے کے تحت جیوری کی جانب سے ماجد خان کو دی جانے والی قید کی سزا کو کنویننگ اتھارٹی 11 سال تک کم کر سکتی ہے اور 2012 سے ان کے قید میں گزرے وقت کو بھی اس میں شمار کیا جائے گا، جب انہوں نے مجرم ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

اس کے مطلب ہے کہ انہیں اگلے سال تک رہائی مل سکتی ہے اور کسی تیسرے ملک میں ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ پاکستان واپس نہیں جا سکتے۔

ماجد خان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کچھ تفصیلات 2014 میں شائع ہونے والی ایک سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ میں بھی موجود ہیں، جس میں سی آئی اے پر الزام لگایا گیا کہ اس نے القاعدہ سے منسلک قیدیوں پر اپنے قانونی حدود سے زائد تشدد کیا اور قوم سے بھی اپنے حربوں کے بارے میں جھوٹ بولا۔

سماعت میں ماجد خان نے اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’میں جتنا ان سے تعاون کرتا اور بتاتا، مجھ پر اور بھی زیادہ تشدد کیا جاتا۔‘

وہ القاعدہ کے لیے پیغام رساں ہونے اور کئی ایسے منصوبوں کا حصہ ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں جو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے۔ انہوں نے 2012 میں سازش کرنے، قتل اور دہشت گردی کی معاونت کے الزامات کو حکام کے ساتھ ایک معاہدے کے بدلے میں قبول کیا، جس کے تحت انہیں تعاون جاری رکھنے کے بدلے میں کم سزا کی یقین دہائی کروائی گئی۔

ماجد خان کون ہیں؟

پاکستان نژاد ماجد خان سعودی عرب میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا خاندان 1990 کی دہائی میں امریکہ منتقل ہوا تھا، جہاں انہیں پناہ ملی۔

انہوں نے بالٹی مور کے ایک سکول سے تعلیم حاصل کی اور واشنٹگن ڈی سی کے ایک دفتر میں ٹیکنالوجی سے منسلک نوکری کی، جہاں سے انہوں نے نائن الیون کو پینٹاگون پر جہاز گرنے کے بعد دھواں اٹھتا دیکھا۔ 

انہوں نے کہا کہ اسی سال اپنی والدہ کے انتقال کے بعد وہ انتہا پسندی کی جانب راغب ہوئے، جو ان کی زندگی میں سب سے اہم تھیں۔ 

انہوں نے اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معذرت کی۔ ’میں نے اپنے کیے گئے برے کاموں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی لیے میں نے فرد جرم قبول کیا اور امریکی حکومت سے تعاون کیا۔‘

ماجد گوانتانامو میں اس تفتیشی پروگرام سے گزرنے والے ان ہائی پروفائل قدیوں میں سے پہلے قیدی ہیں، جنہیں بیس پر قائم فوجی ٹریبیونل مجرم قرار دے گا اور سزا سنائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ