گوانتانامو بے سے رہائی کی خبر: ’ایسے مٹھائی بانٹی جیسے عید ہو‘

گوانتانامو بے میں قید پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور احمد ربانی کے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں رہائی کے بعد ریسیو کرنے خود امریکہ جائیں۔

­کیوبا میں قائم امریکہ کے گوانتانامو بے حراستی مرکز میں قید پاکستانی شہری احمد ربانی کے بیٹے جواد ربانی نے کہا ہے کہ جب انھوں نے والد کی رہائی کے متعلق خبر اپنی والدہ کو بتائی تو وہ چونک گئیں۔

’میں اس وقت اسلام آباد میں تھا جب مجھے پتہ چلا کہ ابو کو امریکی حکام نے رہائی کے لیے کلیئر کر دیا ہے۔

’میں نے ٹیلی فون پر امی کو بتایا۔ میں ان کے چہرے کے تاثرات تو نہیں دیکھ سکا، مگر یہ خبر سن کر امی چونکیں اور کہا یہ تو بہت اچھی نیوز ہے۔

جواد نے مزید بتایا کہ ’پھر امی نے خالہ، ماموں اور دیگر خاندان والوں میں مٹھائی ایسے بانٹی جیسے ہم عید پر بانٹتے ہیں۔‘

 جواد نے کہا کہ ان کے والد 18، 19 سالوں سے قید ہیں، اب امید ہوئی ہے کہ وہ آخرکار رہا ہوجائیں گے۔  

احمد ربانی رہائی کے لیے ’کلیئر‘ 

تقریباً 17 سال سے زائد عرصے سے گوانتانامو بے میں قید کراچی کے ٹیکسی ڈرائیور احمد ربانی کو تقریباً 19 سال قبل امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔

دو سالوں تک افغانستان میں رکھنے کے بعد انھیں گوانتانامو بے منتقل کیا گیا جہاں وہ 17 سال سے قید ہیں۔ 

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ’ری پریو‘ نے، جو احمد ربانی کے حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑ رہا ہے، گذشتہ روز ٹوئٹر پر امریکی حکام کی جانب سے احمد ربانی کو رہائی کے لیے کلیئر قرار دینے کا بتایا تھا۔ 

بیان میں کہا گیا: ’احمد ربانی کی رہائی کے متعلق بنائے گئے 'پیریڈک رویو بورڈ' میں شامل سرکردہ چھ امریکی ایجنسیوں بمشول نیشنل اینٹیلی جنس، ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس، ہوم لینڈ سیکورٹی، جسٹس اینڈ سٹیٹ کے نمائندگان نے احمد ربانی کو گوانتانامو بے سے رہائی کے لیے متفقہ طور پر کلیئر قرار دیا۔‘  

’ری پریو‘ کے سربراہ کلائیو سٹیفرڈ نے انڈپینڈنٹ اردو  کی جانب سے بھیجی گئی ایک ای میل کے جواب میں واضح کیا کہ ’ان (احمد ربانی) کو تاحال رہا نہیں کیا گیا مگر انھیں کلیئر کر دیا گیا ہے اور اب ہم انھیں گھر لے جائیں گے۔‘

’والد کو لینے کے لیے امریکہ جانے کی خواہش‘ 

جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ فیصلہ ایک ہفتے پہلے دیا گیا تھا۔

’مجھے ابو کے وکیل اور ’ری پریو‘ کے سربراہ کلائیو سٹیفرڈ نے ایک ہفتہ پہلے بتایا تھا مگر کچھ کاغذات کی وجہ سے اس فیصلے کا اعلان کرنے میں دیر لگی۔‘

جب جواد سے پوچھا گیا کہ کیا ان کو بھروسہ ہے کہ اب ان کے والد کو رہائی مل جائے گی؟ تو انہوں نے کہا: ’بہت زیادہ امید ہے کہ ابو کو اس بار رہا کردیا جائے گا کیوں کہ ان پر لگے سب الزامات کلیئر ہوگئے ہیں۔

 ’مگر ایک ڈر ہے کہ کچھ قیدی ایسے ہیں کہ ان پر لگے سارے الزامات سے کلیئر کردیا گیا تھا مگر اس کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا۔ ان میں کچھ چار سالوں سے تو کچھ 10 سالوں سے رہائی کا انتظار کررہے ہیں۔

احمد ربانی کے جیل جانے کے پانچ چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے جواد نے کہا کہ ان کے اور ان کے گھر والوں کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ جائیں اور جب ان کے والد کو رہا کیا جائے تو وہ نہ صرف ان کو ریسیو کریں بلکہ انھیں اپنے ساتھ پاکستان واپس لائیں۔ 

’ہم نہیں چاہتے کہ جب وہ جیل سے رہا ہوں تو ان کے ساتھ کچھ الگ ہی ہو جائے۔ وہ بہت بیمار رہتے ہیں۔

’ہم ان کو صحیح سلامت واپس لانا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی ان کی قید کے دوران دنیا یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

’جو چیزیں 2003 یا 2004 میں تھیں اب ویسی نہیں تو رہائی کے بعد ابو کو عجیب لگے گا۔

’تو وہ اپنے بیٹے یا گھروالوں پر ہی بھروسہ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر موقع دیا جائے تو ہم امریکہ جاکر ان کو رہائی کے بعد واپس لے لائیں۔‘

واضح رہے کہ احمد ربانی اپنی اسیری کے خلاف بڑے عرصے سے بھوک ہڑتال کر رہے ہیں اور ان کا وزن بھی آدھا ہوگیا ہے۔  

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مبینہ طور پر پانچ ہزار ڈالرز کے عوض انہیں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلائیو سٹیفرڈ نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے ربانی کو ایک دہشت گرد حسن گل کے دھوکے میں پانچ ہزار ڈالرز کے عوض امریکی حکام کے حوالے کر دیا تھا جو انہیں کابل کی بگرام جیل میں لے گئے۔

ان کے مطابق: ’2004 میں حسن گل گرفتار ہوئے اور ان کو بھی اسی بگرام جیل میں ربانی کے ساتھ قید رکھا گیا اور صرف تین سال قید کے بعد امریکیوں نے انہیں چھوڑ دیا۔

’حسن گل دوبارہ جا کر دہشت گردوں سے مل گئے اور 2012 میں وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔‘

امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ میں سرکاری امریکی محکمہ دفاع کی دستاویزات کے حوالے سے کہا گیا کہ احمد ربانی القاعدہ کے رکن اور امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

دستاویزات کے مطابق سعودی عرب میں پیدا ہونے والے پاکستانی شہری محمد احمد ربانی نے اعتراف کر لیا ہے کہ وہ القاعدہ کے سہولت کار ہیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ القاعدہ کے سینیئر منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے لیے براہِ راست کام کرتے تھے۔ 

سٹیفرڈ کے مطابق احمد ربانی کا القاعدہ یا کسی اور دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور ان سے یہ اعترافات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان