بھارت: ہندو بیٹی پال کر شادی کرانے والی مسلمان ماں

عرفانہ بانو کا کہنا ہے کہ ’رجیتا کو اسلام کے دائرے میں شامل نہ کر کے میں نے اچھا کیا یا برا یہ میرا خدا جانتا ہے۔ مجھے اپنے رب سے بہتر اجر کی امید ہے۔‘

’میرا نام عرفانہ بانو ہے۔ پرسوں کندوری رجیتا نامی جس لڑکی کی شادی ہوئی وہ میری تیسری بیٹی ہے۔ میں نے اسے 13 سال پہلے گود لیا تھا۔ اپنی باقی دو بیٹیوں کی طرح پالا پوسا۔ وہ ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئی تھی اور میں نے اس کی شادی ایک ہندو لڑکے سے اسی طرح انجام دی ہے جس طرح ہندوؤں کے ہاں شادیاں انجام پاتی ہیں یعنی ہندو رسم و رواج کے مطابق۔‘

بھارت کی جنوبی ریاست تلنگانہ کے ضلع کاما ریڈی کے علاقے بانسواڑہ کی رہنے والی عرفانہ بانو فی الوقت گورنمنٹ سوشل ویلفیئر سکول ریزیڈنشیل بورلم میں بحیثیت پرنسپل تعینات ہیں۔

کندوری رجیتا آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئی تو ان کی پرورش کی ذمہ داری عرفانہ بانو نے سنبھالی تھی۔ انہوں نے انہیں نہ صرف اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ دھوم دھام سے ان کی شادی بھی کی۔

تاہم بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے آئے روز پیش آنے والے واقعات کی طرح ہندو لڑکی کی پرورش اور شادی کا یہ غیر معمولی اور مثالی واقعہ بھی بھارتی میڈیا کے لیے خبر نہیں ہے۔

عرفانہ بانو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کندوری رجیتا میری ایسی ہی بیٹی ہیں جیسی میری دو سگی بیٹیاں ہیں۔

’سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی سگی بیٹیوں کی اتنی شاندار شادی نہ کر سکی جس طرح کی شادی میں نے رجیتا کی کرائی۔ میں نے اپنے تمام جاننے والوں کو دعوت دی تھی۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ شادی میں شرکت کرنے والے ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔‘

عرفانہ نے بتایا کہ ’رجیتا مجھے ممی اور میرے شوہر کو بابا کہہ کر پکارتی ہیں۔ میرے تمام رشتہ دار اس سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنے میرے دوسرے بچوں سے کرتے ہیں۔ یہ ہمارے گھر کی مالکن تھی۔ گھر کی چابیاں اسی کے پاس رہتی تھیں۔‘

کبھی نہیں کہا مسلمان ہو جاؤ

عرفانہ نے بتایا کہ میں اللہ کی عبادت کی پابند خاتون ہوں لیکن رجیتا سے کبھی نہیں کہا کہ مسلمان ہو جاؤ۔

’اگر میں کہتی تو مجھے اندر ہی اندر لگتا کہ شاید میں اسے زبردستی اپنا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہوں۔ مجھ سے آج تک سینکڑوں مسلمانوں نے پوچھا کہ آپ اپنی بیٹی کا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرا پائیں۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی زبردستی صحیح نہیں ہے۔ میں جب بھی روزہ رکھتی تو رجیتا رات کے تین دن بجے اٹھ کر میرے لیے کھانا تیار کرتی تھی۔ پھر افطار کے لیے بہت اچھے انتظامات کرتی تھی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی اور میں اس کا۔‘

عرفانہ کا کہنا ہے کہ ’رجیتا کو اسلام کے دائرے میں شامل نہ کر کے میں نے اچھا کیا یا برا یہ میرا خدا جانتا ہے۔ مجھے اپنے رب سے بہتر اجر کی امید ہے۔‘

 جب عرفانہ نے رجیتا کو گود لیا

عرفانہ بانو نے بتایا کہ بچپن میں ہی کندوری رجیتا کے والد لاپتہ ہو گئے تھے اور جب یہ آٹھ سال کی ہوئیں تو ان کی والدہ انتقال کر گئیں۔

’یہ اس وقت کی بات ہے جب میں تاڑوائی نامی گاؤں کے کستوربا گاندھی بالیکا ودھالیہ سکول میں بحیثیت پرنسپل تعینات تھی۔ رجیتا کی ماسی میری پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ میں اس لڑکی کا کیا کروں؟ میرے شوہر مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تم نے اس لڑکی کو اپنے ساتھ رکھا تو میں زہر کھا کر اپنی جان دے دوں گا۔‘

’میں نے رجیتا کی ماسی سے کہا کہ آپ کل پھر اسے اپنے ساتھ لے آئیں تاکہ میں اس کا سکول میں داخلہ کر سکوں۔ اس نے کہا کہ میں اسے اپنے گھر نہیں لے جا سکتی کیوں کہ میرے شوہر اس کو رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

’میں اس بچی کو اپنے گھر لے آئی۔ چوں کہ کستوربا گاندھی بالیکا ودھالیہ ایک اقامتی سکول ہے تو رجیتا پڑھائی کے دنوں میں ہوسٹل میں مقیم رہتی تھی اور پھر جب چھٹیوں میں سبھی بچے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے تو وہ میرے ساتھ میرے گھر آتی تھی۔ دسویں تک رجیتا وہیں پڑھیں۔ دسویں کے بعد وہ مستقل طور پر میرے گھر میں میری تیسری بیٹی کی طرح رہنے لگیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے انہیں آگے کی تعلیم دلوانے کے لیے ایک سرکاری کالج میں داخل کرایا۔ کالج سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے ان کا داخلہ ضلع نظام آباد میں واقع ایک نجی کالج میں میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجی کے ڈپلوما کورس میں کرایا جو انہوں نے کامیابی سے تکمیل کو پہنچایا۔‘

’رجیتا کے ایک ماموں تھے جو کبھی کبھار میرے پاس آتے تھے لیکن وہ بھی چار سال پہلے دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے۔ یعنی ان کا میرے سوا کوئی نہیں تھا۔ یہ بات میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ میرے سبھی بچے سگے بھائی بہنوں کی طرح رہتے ہیں۔ میرا واحد لڑکا سعید انور اپنی سبھی بہنوں کی جان ہے۔ وہ یورپ میں ایم بی اے کی ڈگری کر رہا ہے۔‘

 رجیتا کی شادی

عرفانہ بانو نے رجیتا کی شادی بومن دیو پلی نامی گاؤں کے رہنے والے وینکٹ رام ریڈی سے کرائی ہے جو پیشے سے الیکٹریشن ہیں۔

’میری دو لڑکیوں کی شادی ہو چکی تھی۔ یہ میری تیسری لڑکی تھی جس کی شادی کرنا ابھی باقی تھی۔ میں نے اپنے سکول میں عملے کو بتایا کہ آپ کی نظر میں اگر میری لڑکی کے لیے کوئی اچھا رشتہ ہے تو مجھے بتا دیجیے گا۔ میرے سکول میں راجیشوری نامی ایک خاتون ہیلتھ سوپروائزر ہے۔‘

’وہ مجھ سے کہنے لگی کہ میرے میکے کے گاؤں بومن دیو پلی میں ایک ریڈی فیملی نے مجھے بتایا ہے کہ ہم اپنے بیٹے کی شادی کسی نیک اور غریب لڑکی سے کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے راجیشوری سے کہا کہ آپ انہیں بلا لیجیے۔ وہ آئے، لڑکی کو دیکھا اور پسند بھی کرلیا۔ آٹھ دن کے اندر منگنی ہوئی اور 20 دن کے اندر شادی بھی ہو گئی۔‘

’میں نے رجیتا کی شادی بالکل ویسی ہی انجام دی جیسے ایک ہندو لڑکی کی ہوتی ہے۔ تمام تر رسومات ہندو مذہب کے مطابق انجام پائے۔ کنیا دان کے تمام فرائض میں اور میرے شوہر نے انجام دیے۔‘

عرفانہ بانو کے شوہر شیخ احمد پیشے سے ایک ڈرائیور ہیں اور ان کے مطابق ایک بہت اچھے انسان ہیں۔ ’شیخ احمد کی سپورٹ کے بغیر میرے لیے یہ کام کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے صرف میٹرک پاس کیا تھا۔ میرے شوہر نے ہی مجھے آگے کی تعلیم دلوائی۔‘

 اپنا ذاتی مکان نہیں

عرفانہ بانو نے بتایا کہ کچھ لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ پاگل عورت ہیں جو اپنا سرمایہ دوسروں پر لٹا رہی ہیں۔

’میں کسی کے منہ پر تالا نہیں چڑھا سکتی لیکن اللہ سے بہتر اجر کی امید تو رکھ سکتی ہوں۔ لوگ ایسا اس لیے کہتے ہیں کیوں کہ میں کئی برسوں سے سرکاری ملازمت کر رہی ہوں لیکن میرے پاس اپنا ذاتی گھر نہیں ہے۔ پلاٹ، سونا اور چاندی کچھ بھی نہیں ہے۔ جو ہے تھوڑے کچھ اچھے اعمال ہیں جو شاید آخرت میں میرے کام آئیں گے۔ ہم تو یہاں سے جائیداد نہیں بلکہ اچھے یا برے اعمال ہی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔‘

’میں کسی کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی۔ اگر میرے سامنے کوئی جھوٹے آنسو بھی بہائے گا تو میں یقین کر لوں گی۔ اگر مجھ سے کوئی پیسے مانگتا ہے تو میرے پاس نہیں ہوں گے تو میں کسی سے ادھار لے کر دیتی ہوں۔‘

 جب عرفانہ نے بھاگیہ لکشمی کی شادی کروائی

رجیتا سے پہلے عرفانہ بانو نے سنہ 2018 میں بھاگیہ لکشمی نامی ایک ہندو لڑکی کی شادی کروائی تھی۔

’ایک بچی کو کوئی کچرے کے ڈھیر میں پھینک کر چلا گیا تھا۔ ایک جوڑا جنہیں اپنی اولاد نہیں تھی نے اسے گود لیا اور اس کا نام بھاگیہ لکشمی رکھا۔ کچھ سال بعد اس جوڑے کے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی تو ماں نے دونوں بچوں کے درمیان فرق کرنا شروع کیا۔

اس عورت کا شوہر جو اس لڑکی کا اچھا خیال رکھتا تھا ایک حادثے میں مر گیا۔ پھر بھاگیہ لکشمی کو میرے ہوسٹل میں داخل کرایا گیا اور میں نے اس کی پڑھائی کی ذمہ داری بھی لی۔ اپنی بڑی لڑکی کے ساتھ بی ایس سی نرسنگ کی تعلیم دلوائی اور پھر جولائی 2018 میں اس کی شیکھر نامی نوجوان سے شادی کروائی جو گائتری شوگر فیکٹری میں ملازم ہے۔ ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش بھی ہوئی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا