جب تریپورہ جل رہا تھا

جب بھی مسلمانوں نے اتحاد بنانے کی کبھی کوشش کی، ہر بار یہ معلوم ہوا کہ مسلمان خود ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے دوسرا بیشتر کو فرضی کیسوں میں پھنسا کر افراتفری میں الجھایا گیا ہے۔

29 اکتوبر 2021 کو دہلی میں ایک احتجاج کے دوران آل انڈیا سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (آئیسا) اور دیگر طلبہ یونینوں کے کارکنان نے ریاست تریپورہ میں تشدد کے حالیہ واقعات کے خلاف احتجاج کیا (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


گودی میڈیا کے چھپانے کے باوجود تریپورہ میں مسلم آبادی کے خلاف دنگے فسادات کروانے اور ایک درجن سے زائد مسجدیں تہس نہس کرنے کی خبریں سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئیں۔

مقامی پولیس اور انتظامیہ نے گو کہ پہلے فسادات بھڑکنے کی نفی کر دی لیکن چند صحافیوں کی بروقت رپورٹنگ اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز سے ان کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوگئے۔

آتشزدگی اور مشتعل کرنے والے نعروں کے مناظر دیکھ کر بھارت کی دوسری ریاستوں میں آباد مسلمان خوف سے لرز گئے کیونکہ دہلی کے بعد آسام اور اب تریپورہ میں ان کو بھڑکانے کے پیچھے بظاہر ایک ہی مقصد کار فرما نظر آ رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کرکے انہیں شہریت سے محروم کیا جاسکے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں کی نہ تو کوئی منظم لیڈرشپ ہے اور نہ انہیں منظم ہونے کی گنجائش دی گئی ہے۔ جب بھی مسلمانوں نے اتحاد بنانے کی کبھی کوشش کی، ہر بار یہ معلوم ہوا کہ مسلمان خود ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے، دوسرا بیشتر کو فرضی کیسوں میں پھنسا کر افراتفری میں الجھایا گیا ہے۔

کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے گو کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے پر اپنا اثرورسوخ قائم کر دیا ہے لیکن ایک تو انہوں نے حیدرآباد سے باہر آنے میں کافی دیر کر دی، دوسرا مسلم آبادی والے بیشتر علاقے غیر مسلم نمائندوں کے کھاتے میں چلے گئے ہیں اور تیسرا ان کو حکمران بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بی ٹیم سے بھی تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔

انہوں نے تریپورہ پر محض چند بیانات جاری کرنے پر اکتفا کیا جبکہ وہاں کے متاثرہ خاندان ان کی آمد کی توقع کرتے تھے۔

ہندوتوا پالیسی کا یہ ثمر ملا ہے کہ بڑی اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب ہندو ہونے کا ثبوت دینے کے لیے مسلم امیدواروں کو مینڈیٹ دینے سے گریز کرنا پڑ رہا ہے، جس میں کانگریس سرفہرست ہے بلکہ مسلمان رہنماؤں کو ماضی میں انتخابی مہم چلانے کی ممانعت بھی کی گئی تھی۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں ہمیشہ سے اندرونی سیاسی انتشار رہا ہے البتہ آسام یا تریپورہ میں اکثر ہندو مسلم فسادات رونما ہوتے رہے ہیں۔

سات بہنیں کہلانے والے اس خطے میں علحیدگی پسند تحریکیں 90 کی دہائی تک بڑی مضبوط رہی ہیں جس کی وجہ کئی ریاستوں میں سکیورٹی افواج کو افسپا نامی قانون کے تحت خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں لیکن وہ تحریک آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اب بھی بعض ریاستوں کو آئین ہند کے تحت اندرونی خودمختاری حاصل ہے، جس کے بارے میں جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

تریپورہ کی چھوٹی ریاست ساڑھے 15 ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور دارالحکومت اگرتلہ بنگلہ دیش سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چند برسوں سے دراندازی روکنے کے لیے یہاں سرحدی افواج کی نگرانی کافی سخت کی گئی ہے۔

36 لاکھ کی آبادی والے اس علاقے میں تقریباً دس فیصد مسلمان ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ یہاں کے پشتینی باشندے ہیں مگر مقامی ہندو تنظیمیں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس ان کو بنگالی تصور کرتی ہیں، جن کے مطابق سن 1971 کی جنگ میں بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت ان میں سے بیشتر وہاں سے نقل مکانی کر کے بھارت میں داخل ہوئے تھے۔

شہریت کے ترامیمی قانون کے بعد خطے میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے خاص طور سے مسلمانوں میں جنہیں جان بوجھ کر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال آسام میں حالیہ مظاہروں پر فائرنگ کا وہ واقعہ ہے جب پولیس نے بلوائیوں کی بجائے متاثرین کو نشانہ بنایا اور جس کے ردعمل میں بنگلہ دیش میں بعض ہندو مندروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

حکومت بنگلہ دیش نے اس کا سخت نوٹس لے کر فسادی عناصر کو گرفتار کیا۔ اس کے برعکس بھارت کے مسلمان پریشان ہیں کہ یہاں کی حکومت خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دارالحکومت اگرتلہ کے مولوی ابرار کہتے ہیں کہ ’بابری مسجد کے انہدام کے بعد یہاں ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں دوسری ریاستوں میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف بنگلہ دیش میں جب مظاہروں کے دوران چند ہندوؤں کو نشانہ بنایا گیا تو بعض ہندو باہر کی ریاستوں سے یہاں آکر تریپورہ میں دنگے فساد کرانے میں کامیاب ہوئے، جس کے نتیجے میں ایک درجن مساجد کو جلانے کی کوشش کی گئی اور نجی املاک کو خاکستر کیا گیا۔ اگر مقامی انتظامیہ نے بروقت کاروائی کی ہوتی تو مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان سے بچایا گیا ہوتا۔‘

بعض رپورٹوں کے مطابق بنگلہ دیش میں مظاہروں کے بعد شمال مشرقی بھارت کی ہندو تنظیموں نے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس کرکے ہندووں کے جذبات بھڑکائے جس کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ بعض مقامی ہندوؤں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرکے تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف جان بوجھ کر فسادات کروائے گئے۔

بھارتی صحافی سمرودھی کے سکونیا نے تریپورہ فسادات کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی معلومات دیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’تریپورہ کے ہندوؤں کو فسادات کرنے پر بھڑکایا گیا جس کی اطلاع سرکار کو پہلے ہی ملی تھی مگر ان پر روک لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اب تک 15 سے زائد مساجد کو نقصان پہنچایا گیا ہے، مقامی میڈیا پر سخت پابندی ہے اور عوام کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔‘

اتحاد المسلمین کے ایک کارکن نے ٹوئٹر سپیس میں بولتے ہوئے کہا کہ ’آسام ہو یا تریپورہ، گودرہ ہو یا دہلی، بھارت میں ان فسادات کو کروانے میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بر سر پیکار ہیں جن کو حکمران جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور پھر ان کے کارکنوں کو انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔‘

بھارت کی مختلف ریاستوں میں اقلیتوں پر ایسے وقت میں حملے ہو رہے ہیں جب سیاست کے عالمی سٹیج پر ہندوستان کے وزیراعظم سیکولر ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں اور سکاٹ لینڈ میں حالیہ ماحولیاتی کانفرنس کے دوران عالمی لیڈروں کے گلے لگ کر اندرون ملک ’سب چنگا ہے‘ کا تاثر دینے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ