’سکیور نیبرہڈ‘ سروے کی بڑی وجہ چینیوں کی سکیورٹی اور افغان شہری: وزارت داخلہ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں وزارت داخلہ نے بتایا کہ سروے کی وجہ ’چینی شہریوں کی سکیورٹی کو مسائل اور افغان شہریوں کی آمدورفت بھی ایک عنصر ہے۔‘

چیئر پرسن سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت 9 دسمبر 2025 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کی وزارت داخلہ نے منگل کو بتایا ہے کہ اسلام آباد میں ہاؤس ہولڈ سروے شروع کرنے کی بنیادی وجہ چینی شہریوں کی سکیورٹی اور افغان شہریوں سے جڑے خدشات ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر شروع کیے گئے ’محفوظ پڑوس/سکیور نیبر ہڈ‘ نامی منصوبے کے تحت اسلام آباد ہاؤس ہولڈ سروے ایپلی کیشن کا اجرا 13 نومبر کو کیا گیا تھا۔

اس اقدام کا مقصد شہر کے ہر گھر، ہر دکان اور ہر دفتر میں مقیم یا کام کرنے والے افراد کی معلومات جمع کرنا ہے۔

چیئر پرسن سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔

اس اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ نذر محمد نے بتایا کہ اس ایپ کے اجرا کی بنیادی وجہ ’چینی شہریوں کی سکیورٹی کو درپیش بڑھتے ہوئے مسائل ہیں، جن میں افغان شہریوں کی آمدورفت بھی ایک عنصر کے طور پر سامنے آئی ہے۔‘

نذر محمد بزدار نے کمیٹی کو بتایا کہ بعض غیرملکی باشندے پاکستان میں داخل ہوتے وقت غلط معلومات فراہم کرتے ہیں، جس کے باعث سکیورٹی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

اس موقع پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن نے بتایا کہ یہ سروے تیزی سے بدلتی سکیورٹی ضروریات کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے۔

تاہم کمیٹی نے ڈیٹا پروٹیکشن قوانین نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

چیئر پرسن نے سوال اٹھایا ’اگر کسی گھر میں صرف بزرگ افراد رہتے ہوں یا مرد موجود نہ ہو، تو ایسی معلومات کے غلط ہاتھوں میں جانے سے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔‘

جبکہ کمیٹی رکن سینیٹر افنان اللہ نے ماضی میں ہونے والے متعدد ڈیٹا لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ذمہ داران کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

پاکستان میں اس وقت ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق کوئی بھی قانون سازی تاحال نہیں کی گئی ہے۔

دوسری جانب ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’شہریوں کو سروے میں معلومات فراہم کرنے پر مجبور نہیں کیا جا رہا۔‘

جبکہ ڈی سی اسلام آباد کے مطابق سیکٹر ایف سکس اور ایف سیون کے بعض رہائشیوں نے اپنے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔

تاہم شہر کے دیگر علاقوں میں ایسا نہیں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

65 سالہ محمود حسین (فرضی نام) سیکٹر ایف 10 کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ جب سروے کرنے والی ٹیم ان کے گھر پہنچی تو وہ اپنی تفصیلات فراہم نہیں کرنا چاہتے تھے۔

محمود حسین کا کہنا ہے کہ ’میں نے انہیں کہا کہ یہ قوانین کے خلاف ہے اور ہم ذاتی معلومات بتانے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن مجھے اس وقت تفصیلات دینا پڑیں جب متعلقہ افراد پولیس اہلکار کو ساتھ لے آئے۔ میں معاملہ بگاڑنا نہیں چاہتا تھا لہذا ڈیٹا فراہم کر دیا جو نامکمل تھا۔‘

وفاقی حکومت کی جانب سے کیا گیا یہ پہلا ایسا اقدام نہیں، اس سے پہلے بھی سال 2009، 2015، 2016، 2019، 2023 میں بھی ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔

اس ضمن میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ مالک مکان اور کرایہ دار سے تفصیلات مانگنے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے لہذا ضلعی مجسٹریٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ compulsory orders جاری کریں۔

ڈی سی اسلام آباد نے کمیٹی اجلاس میں بتایا کہ ’ریڈ زون میں سات چیک پوسٹ ہیں جبکہ داخلی پوائنٹس پر 14 چیک پوسٹیں موجود ہیں۔‘

اس کے ساتھ انہوں نے سروے کے دوران جمع شدہ ڈیٹا کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’تاحال تقریباً 28 ہزار 594 گھروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔‘

چیئر پرسن کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ ’شہری کتنی مرتبہ ملک سے باہر گئے، اس پر کوئی انکوائری کی گئی؟‘

ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ نذر محمد نے کمیٹی کو بتایا کہ ’اسلام آباد میں یہ سروے اس لیے شروع کیا گیا کیونکہ شہر نے تیزی سے پھیل رہا ہے، لہذا سکیورٹی انتظامات کو مضبوط بنانے کی ضرورت تھی۔‘

بعد ازاں کمیٹی نے نادرا کو اجلاس میں طلب کیا تاکہ ڈیٹا کی حفاظت اور اس کے تحفظ سے متعلق مزید وضاحت فراہم کی جا سکے۔

دوسری جانب ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہاؤس ہولڈ سروے کا آغاز ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’ریاست شہریوں کا حساس ذاتی ڈیٹا بغیر کسی قانونی تحفظ، شفافیت یا احتساب کے جمع کر رہی ہے۔

’پاکستان میں نہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون موجود ہے اور نہ ہی آزاد ریگولیٹر اور مؤثر نگرانی ہے۔ اسی وجہ سے ایسے اقدامات پرائیویسی، نگرانی اور معلومات کے غلط استعمال کے سنگین خدشات پیدا کرتے ہیں۔‘

نگہت داد نے سوال اٹھایا کہ ’جب شہریوں کے شناختی کارڈ، خاندانی تفصیلات، فون ریکارڈ اور بائیومیٹرک ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت ہو رہا ہے تو حکومت کو مزید ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بجائے پہلے یہ بتانا چاہیے کہ موجودہ ڈیٹا کو محفوظ کیسے بنایا جائے گا اور شہری ایک اور ڈیٹا بیس پر بھروسا کیوں کریں؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’موثر ڈیجیٹل گورننس شفافیت کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی بھی بڑے سروے سے پہلے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ عالمی معیار کا ڈیٹا پروٹیکشن قانون بنائے اور ایک آزاد ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرے۔‘

نگہت داد کے مطابق یہ اتھارٹی ’ڈیٹا ڈیلیشن ٹائم لائنز اور شہریوں کی رضامندی کا طریقہ کار طے کرے اور عوام کو بتائے کہ اس ڈیٹا تک کس کی رسائی ہوگی اور کیوں ہوگی؟ ورنہ ایسے اقدامات عوام کے عدم اعتماد میں مزید اضافہ کرتے ہیں، کیونکہ پرائیویسی کوئی آسائش نہیں بلکہ شہریوں کا بنیادی حق ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان