6 نومبر 1990، جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 1990 میں حکومت برطرف ہونے کے بعد ملک کے پانچویں انتخابات میں ان کے مقابلے پر اسلامی جمہوری اتحاد نے الیکشن لڑا جس کی قیادت میاں محمد نواز شریف کر رہے تھے۔

چھ نومبر 1990 کو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد نواز شریف کو مبارک باد دی جا رہی ہے (اے ایف پی)

یہ ذکر ہے چھ اگست 1990 کا، جب صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور لاقانونیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کی حکومت آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت برطرف کر دی اور غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں انہیں پہلا نگران وزیر اعظم قرار دیا جاتا ہے۔

غلام مصطفیٰ جتوئی کے زیر قیادت نگران حکومت کی طرف سے 24 اکتوبر 1990 کو کرائے جانے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان جمہوری اتحاد (پی ڈی اے) کے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس اتحاد میں پی پی پی کے علاوہ سابق ایئر چیف مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور پاکستان مسلم لیگ کا ملک قاسم گروپ شامل تھا۔ جبکہ ان کے بالمقابل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) حصہ لے رہا تھا جس کی قیادت میاں محمد نواز شریف کر رہے تھے۔ 

پاکستان کی تاریخ کے ان پانچویں عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد جیسی قدامت پسند جماعت نے قومی اسمبلی میں 105 نشستیں جیتیں جب کہ پی ڈی اے نے صرف 45 نشستیں حاصل کیں۔ دیگر 56 نشستیں ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔

 

پی ڈی اے کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ بے نظیر بھٹو نے نئے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمان کو غیر نمائندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمان صدر غلام اسحاق خان کی تشکیل کردہ ہے۔

پارلیمان میں اکثریتی جماعت  کے طور پر آئی جے آئی کی پارلیمانی پارٹی نے میاں محمد نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ چھ نومبر 1990 کی صبح قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ یہاں نواز شریف کو قومی اسمبلی کے 192 میں سے 153 ووٹ ملے جب کہ پی ڈی اے کے امیدوار افضل خان صرف 39 ووٹ حاصل کر سکے۔ اسی دن میاں محمد نواز شریف نے پہلی مرتبہ بطور وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

 وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہی مختلف ایشوز پر میاں محمد نواز شریف کے صدر مملکت غلام اسحاق خان کے ساتھ گہرے اختلافات پیدا ہو گئے۔ یہ گہرے اختلافات اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گئے جب 17 اپریل 1993 کو وزیر اعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز سے قوم کو اپنی خدمات گنوائیں اور ایوان صدر کو سازشوں کی آماج گاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہ استعفیٰ دیں گے، نہ اسمبلی توڑیں گے اور نہ ڈکٹیشن لیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ خطاب صدر غلام اسحاق خان، جو اسمبلی توڑنے کے حوالے سے گومگو کا شکار تھے، کو ایک مضبوط جواز فراہم کر گیا اور اگلے ہی روز 18 اپریل 1993 کو انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف، ان کی کابینہ اور اسمبلی کو برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی شام ایوان صدر میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں صدر غلام اسحاق خان نے سینیئر پارلیمنٹرین میر بلخ شیر مزاری سے نگران وزیر اعظم کے منصب کا حلف لیا۔

صدر مملکت غلام اسحاق خان کے اس انتہائی اقدام کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کیپٹن (ر) گوہر ایوب خان نے اسمبلی کے کسٹوڈین کی حیثیت سے اسمبلی ٹوٹنے کے چار گھنٹے بعد رات ڈیڑھ بجے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس کے بعد مزید 17 رٹ درخواستیں دائر ہوئیں جن میں وزیر اعظم نواز شریف، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اجمل خٹک اور چوہدری شجاعت حسین کے نام قابل ذکر ہیں۔

چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے فل بینچ نے تقریباً پانچ ہفتے کی سماعت کے بعد 26 مئی 1993 کو قومی اسمبلی اور نواز شریف حکومت کی غیر مشروط بحالی کا حکم جاری کر دیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ فل بنچ کے واحد جج تھے جنہوں نے اختلاف کیا اور اپنا طویل اختلافی فیصلہ لکھا۔

عدالتی فیصلے کے تناظر میں نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری نے 26 مئی 1993 کو ہی 39 دن حکومت کرنے کے بعد اقتدار نواز شریف کو منتقل کر دیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں ایوان صدر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، وہیں ملک میں سیاسی بحران کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔

جولائی 1993 کے اوائل میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اعلان کیا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف نے نئے انتخابات کروانے کا اعلان نہیں کیا تو وہ 16 جولائی 1993 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔

اس بحرانی صورت حال میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے ایک جانب قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو کو لانگ مارچ منسوخ کرنے پر آمادہ کیا اور دوسری جانب صدر غلام اسحاق خان کو استعفیٰ دینے اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اسمبلی توڑنے پر تیار کر لیا۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے تینوں فریقین کو ان فیصلوں پر عمل درآمد کی صورت میں عام انتخابات وقت پر منعقد کروانے کی ضمانت دی۔

پاکستان کی سیاست میں 18 جولائی 1993 وہ تاریخی دن تھا جب ’کاکڑ فارمولا‘ کے تحت ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی ایک ساتھ اپنے مناصب سے رخصتی عمل میں لائی گئی۔ پہلے وزیر اعظم نے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دی، پھر صدر نے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ 

بعدازاں میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے اتفاق رائے سے عالمی بینک کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنا دیا گیا جبکہ سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔

ملکی تاریخ کے انہی پانچویں عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی فتح کے بعد پاکستان جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی جماعت تحریک استقلال کے چیئرمین ایئر چیف مارشل (ر) اصغر خان نے آئی جے آئی کی تشکیل میں سکیورٹی اداروں کی معاونت اور جیتنے والے سیاست دانوں پر انہی اداروں سے رقوم لینے کے سنگین الزامات عائد کیے تھے اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں یہ کیس ’اصغر خان کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ