چلی کے صحرا میں فاسٹ فیشن کا قبرستان

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ملبوسات کی شکل میں نو کروڑ 20 لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور ہر سیکنڈ میں کپڑوں سے بھرا کچرے کا ٹرک کوڑے کے مخصوص مقامات پر پہنچتا ہے۔

خواتین 26 ستمبر 2021 کو ایٹاکاما کے صحرا میں ٹنوں وزنی ترک کیے جانے والے کپڑوں میں سے اپنے استعمال کے لیے ملبوسات تلاش کر رہی ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

دنیا کا خشک ترین چلی کا صحرائے ایٹاکاما میں سستے اور تیزی سے تیار کیے جانے والے ان ملبوسات کے ڈھیر لگ گئے ہیں جن کا استعمال ترک کر دیا گیا۔ اس کچرے کا وزن کم از کم 39 ہزار ٹن ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہر سال زیادہ تر چین اور بنگلہ دیش سے استعمال اور فروخت نہ ہو پانے والے ملبوسات یورپ، ایشیا اور امریکہ سے ہوتے ہوئے چلی پہنچ جاتے ہیں۔

ان ملبوسات کا وزن 59 ہزار ٹن کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ یہ کپڑے شمالی چلی میں آلٹو ہوسپشیو کے فری زون میں واقع اکیکے بندرگاہ میں بھیجے جاتے ہیں جہاں سے کچھ ملبوسات کو لاطینی امریکہ میں دوبارہ فروخت کر دیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر کپڑوں کی منزل صحرا ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی ان کپڑوں کو لے جانے کے لیے ضروری خرچہ نہیں کرتا۔

ایکو فائبرا نامی کمپنی کے بانی فرینکلن زپیدا نے اے ایف پی کو بتایا: ’مسئلہ یہ ہے کہ یہ ملبوسات خود بخود تلف نہیں ہوتے اور ان میں کیماوی مواد شامل ہوتا ہے اس لیے بلدیاتی ادارے انہیں کوڑے اکٹھا کرنے کے لیے اپنے مقامات پر لے جانے کے لیے قبول نہیں کرتے۔‘

ایکوفائبرا گھروں کو گرمی اور سردی سے محفوظ رکھنے والے انسولیشن پینل تیار کرتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ملبوسات کی شکل میں نو کروڑ 20 لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور ہر سیکنڈ میں کپڑوں سے بھرا کچرے کا ٹرک کوڑے کے مخصوص مقامات پر پہنچتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلاحی ادارے کیپ برٹین ٹائیڈی کے مطابق: ’حیران کن طور پر ہر پانچ منٹ میں پہناوے کے طور پر استعمال ہونے والی 10 ہزار اشیا کوڑے کے لیے مخصوص میدانوں میں بھیجی جا رہی ہیں جن مالیت سالانہ 14 کروڑ پاؤنڈز کے برابر ہے۔

اقوام متحدہ کی 2019 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2014 کے دوران دنیا بھر میں ملبوسات کی تیاری دگنی ہوگئی ہے اور یہ صنعت ’عالمی سطح پر پانی کے 20 فیصد ضیاع کی ذمہ دار ہے۔‘

کھلے میدانوں اور کوڑے کے دوسرے ڈھیروں جیسا کہ ایٹاکاما میں ڈالے گئے ملبوسات کے کچرے کو تلف ہونے میں سینکڑوں سال لگ سکتے ہیں۔

اس عمل سے ماحول اور فراہمی آب کے نظام آلودہ ہوں گے۔ چلی کے صحرا میں ڈالے جانے والے ملبوسات میں سے کچھ کو مقامی لوگ اپنے لیے یا بیچنے کے لیے اٹھا لیتے ہیں اور باقی ماندہ ملبوسات کو ایکوفائبرا جیسے محفوظ کاروباروں میں استعمال کیا جاتا ہے جو اس کپڑے کو استعمال میں لاکر زیادہ مفید سامان تیار کرتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات