چلی کی سائنس دان نے بیکٹریا کو دھات کھانا سکھا دیا

براعظم جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں ایک سائنس دان ’دھات کھانے والے‘ بیکٹیریا پر تحقیق کر رہی ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ وہ ملک کی انتہائی آلودہ معدنی کانوں کو صاف کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

انتہائی سخت حالات میں زندہ رہنے والے بیکٹریا کو بھوکا رکھنے پر وہ صرف تین دن میں ایک کیل ’ہڑپ‘ کر گئے۔

براعظم جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں ایک سائنس دان ’دھات کھانے والے‘ بیکٹیریا پر تحقیق کر رہی ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ وہ ملک کی انتہائی آلودہ معدنی کانوں کو صاف کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

سینٹیاگو سے 11 سو کلومیٹر شمال میں ایک صنعتی قصبے اینٹوفاگستا کی لیبارٹری میں 33 سالہ بائیوٹیکنالوجسٹ ناداک ریئلز انتہائی سخت ماحول میں رہنے والے جرثوموں پر ٹیسٹ کر رہی ہیں۔

ریئلز نے یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے یہ خیال پیش کیا تھا جب وہ کان کنی کے پلانٹ میں ٹیسٹ کر رہی تھیں تاکہ بیکٹیریا کا استعمال کرتے ہوئے تانبے کو نکالنے کے عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے محسوس کیا کہ کان کنی کی صنعت کی مختلف ضروریات ہیں۔ مثال کے طور پر دھاتی فضلے کے ساتھ کیا کیا جائے؟‘

کچھ دھاتوں کو پگھلانے والے پلانٹس میں ری سائیکل کیا جا سکتا ہے لیکن بڑے مال بردار یا ایج جی وی ٹرکس کے ہاپرز جو 50 ٹن پتھر لے جا سکتے ہیں، انہیں ایسے پگھلایا نہیں جا سکتا اور اکثر کان کنی اور معدنیات سے مالامال چلی کے اٹاکاما ریگستان میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چلی دنیا میں تانبا پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو کہ ملک کے جی ڈی پی کا 15 فیصد ہے اور اس کے نتیجے میں کان کنی کا بہت زیادہ فضلہ ماحول کو آلودہ کرتا ہے۔

اب اپنی کمپنی روڈانیک بائیوٹیک چلانے والی ریئلز نے تحقیق میں آئرن آکسائڈائزنگ بیکٹیریا پر توجہ دی ہے جسے لیپٹوسپیرلم کہتے ہیں۔

انہوں نے بیکٹیریا کو اینٹوفاگستا سے 350 کلومیٹر دور سطح سمندر سے چار ہزار سے زائد میٹر کی بلندی پر واقع ٹیٹیو نامی گرم پانی کے چشمے سے نکالا۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ بیکٹیریا تیزابیت والے ماحول میں رہتے ہیں جو کہ دھاتوں کی نسبتاً زیادہ مقدار سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ تحقیق کی شروع میں بیکٹیریا کو ایک دھاتی کیل کو ختم کرنے میں دو ماہ لگے۔ لیکن جب انہیں بھوکا رکھا گیا تو انہیں خود کو ڈھالنا پڑا اور دو سال کے تجربات کے بعد ان میں کیل کھانے میں تیزی آئی اور تین دن میں اسے ختم کر گئے۔

ریئلز کا کہنا ہے کہ کیمیائی اور مائیکرو بائیولوجیکل ٹیسٹ نے ثابت کیا ہے کہ یہ بیکٹیریا انسانوں یا ماحول کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔

ان کے بقول اس کا مطلب ہے کہ ماحول دوست کان کنی اب بالکل ممکن ہے۔

یہ دریافت کان کنی کرنے والی کمپنیوں کے لیے بہت دلچسپی کا باعث ہے جو اس بیکٹیریا کو تانبے یا دیگر معدنیات کے بڑے پیمانے پر نکالنے کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں جبکہ اس سے آلودگی بھی کم ہو گی اور ان کے لیے ایسا کرنا قانون کے مطابق ضروری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا