’کھیل کھیل میں‘ بہت کچھ کہنے والی پہلی پاکستانی فلم

اگرچہ حالات و واقعات کے اعتبار سے دو گھنٹے پر محیط یہ فلم 60 سے 70 فیصد درست معلوم ہوتی ہے لیکن کئی مقامات پر ذہن میں سوال چھوڑ جاتی ہے۔

فلم ظاہری طوور پر نوجوان نسل کے لیے بنائی گئی ہے (تصویر: فلم والا انسٹاگرام اکاؤنٹ)

اس بات کو کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ لاہور کے ایک باوقار تعلیمی ادارے میں بلوچستان پر بات نہیں کرنے دی گئی لیکن اب قدرے تبدیلی یہ آئی ہے کہ ’سقوط ڈھاکہ‘ جیسے سب سے بڑے ملکی سانحے پر بات ملک کی بڑی سکرینوں پر ہو رہی ہے۔

اس فلم کے ناصرف کردار بلکہ ہدف بھی یونیورسٹیوں کے پاکستانی نوجوان طالبہ تھے۔

حال ہی میں کرونا وائرس کی وجہ سے تعطل کے کوئی ڈیڑھ، دو برس بعد سینیما میں گذشتہ دنوں فلم دیکھنے کا موقع ملا۔

تاہم اس اختتام ہفتہ یہ طویل فاقہ ٹوٹا اور واقعی کیا ہی حیران کن ابتدا تھی! اسلام آباد کے سینیما گھر میں موجود شائقین نے دو مرتبہ فلم کے دوران تالیاں بجا کر کسی ڈائیلاگ یا سین پر داد دی۔

پاکستان میں کرونا وبا کے بعد پہلی باقاعدہ سینیما گھروں کے لیے ریلیز ہونے والی فلم ’کھیل کھیل میں‘ کو کئی اعتبار سے مختلف اور خوشگوار تبدیلی پایا۔

نہ پیار محبت کی مشکلات اور نہ گھر یا اربوں کے گھپلے جیسے گھسے پٹے پرانے موضوع۔

اس فلم نے ایک ایسے مسئلہ کو اٹھایا جو ہر پاکستانی کے دل میں مچل رہا تھا لیکن اس پر بات کرنا ماضی میں ناممکن بنا دیا گیا تھا۔

بات ہو رہی ہے پاکستانی تاریخ کے تلخ ترین لمحے، یعنی 1971 میں اس کے دولخت ہونے کی۔

فلم ساز نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی میرزا کی اس نئی فلم میں سجل علی اور بلال عباس مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ جاوید شیخ، مرینا خان، منظر صہبائی اور ثمینہ احمد جیسے منجھے ہوئے سینیئر اداکار بھی فلم کا حصہ ہیں۔

’سقوط ڈھاکہ‘ کے گرد گھومتی یہ فلم ایک اچھی ابتدا ہے۔ بہت سے لوگ اس میں عظیم سانحے کے ذمہ داروں کو تلاش کرنے اور انہیں واقعی سزائیں دینا دیکھنا چاہتے ہوں گے، لیکن اس میں جس حد تک جایا جا سکتا تھا فلم ساز گئے۔

غلطیاں تسلیم بھی کی گئیں کہ دونوں جانب سے ہوئیں، لیکن کیا یہی بہت بڑی پیش رفت نہیں؟

ایک فلم بین نے اختتام پر جاتے جاتے دوسرے سے کہا: ’بچے کی جان لو گے اس سے زیادہ کیا؟‘

میرے لیے تو حیرانی اسی وقت شروع ہوئی جب ہیرو ہیروئن کو اندازہ لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا شاید وہ کسی فوجی کی بیٹی ہے۔

سینسر بورڈ نے مجھے قوی یقین ہے کہ اس ڈائیلاگ پر تفصیلی بحث کے بعد اسے منظور کیا ہوگا؟

ویسے کٹوانے والے باآسانی کٹ کروا بھی سکتے تھے جس سے فلم پر مجموعی طور پر کوئی اثر نہ پڑتا۔ 

پاکستان میں پڑھائے جانے والے سلیبس پر بھی فلم میں وار ہوا ہے۔

ہیروئن کہتی ہیں کہ ٹیکسٹ کتابوں میں ’بادشاہوں کے گھوڑوں‘ پر تو بات ہے لیکن تاریخ کے اس اہم موڑ پر نہیں۔

فلم نے پاکستانی سول سوسائٹی کے دیرینہ مطالبے کو یہاں بظاہر تسلیم کیا ہے کہ نئی پاکستانی نسل کو سقوط ڈھاکہ کیوں نہیں پڑھانا چاہیے۔

یہ سوال ماضی اور حال کے پاکستانی حکمرانوں سے پوچھنا چاہیے۔

فلم جس پروڈکشن ہاؤس نے بنائی ہے اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے ملک کی تمام مقتدرہ قوتوں کی رضامندی حاصل تھی۔

فلم کے جاری اشتہار میں بھی یہ جملہ کافی طاقت ور اور دھچکہ دینے والا تھا کہ ’آپ کا دیش ٹوٹ چکا ہے۔‘ یہ بھی کافی سوچ بچار کے بعد جاری کیا گیا ہوگا۔

فلم میں سجل علی کو حقائق کو سامنے لانے والی لڑکی کے روپ میں دکھایا گیا ہے جب کہ بلال عباس کو ایک امیر باپ کے بیٹے کے طور پر ملک میں بدلتے حالات و واقعات کی وجہ سے پریشان دکھایا گیا ہے۔ اکثر فلموں کی طرح اس پر بھی ’ایلیٹسٹ‘ رنگ کافی حاوی تھا۔

فلم کی کہانی سچے واقعات سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے جب کہ یہ بھی بتایا گیا کہ افواہوں اور غلط معلومات کی نصف صدی مکمل ہونے کے بعد حقائق سامنے لائے جا رہے ہیں۔

اگرچہ حالات و واقعات کے اعتبار سے دو گھنٹے پر محیط یہ فلم 60 سے 70 فیصد درست معلوم ہوتی ہے لیکن کئی مقامات پر ذہن میں سوال چھوڑ جاتی ہے۔

کوئی بیٹا اپنے والد کو سقوط ڈھاکہ کے بعد نئے ملک میں بےیارو مددگار کیسے چھوڑ سکتا ہے؟

منظر صہبائی فلم اپنی منفرد آواز میں اس تاریخی واقعے کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ملک پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ان کا ماخذ یہی تھا کہ بھارتی فوج نے عام لوگوں کو فوجی وردی پہننے پر مجبور کیا۔

پاکستان نے مارچ 2020 میں کرونا سے احتیاط کے طور پر سینیما بند کیے تھے اور حال ہی میں حکومت نے کیسز میں نمایاں کمی کے بعد سینیماؤں کو کھولنے کا حکم دیا تھا۔

فلم ساز نبیل قریشی نے فلم کے ٹیزر کو شیئر کرتے ہوئے لوگوں سے درخواست کی تھی کہ وہ جلد از جلد کرونا سے تحفظ کی ویکسین لگوالیں، کیوں کہ نومبر میں تقریباً دو سال بعد پاکستان کی پہلی فلم سینیماؤں میں ریلیز ہونے والی ہے۔

تاہم اسلام آباد کے شاپنگ مال میں قائم اس سینیما گھر میں داخل ہونے تک کسی نے ویکسی نیشن کارڈ کا تقاضہ نہیں کیا۔

شاید بیک اینڈ پر ہم سب کا نادرا ڈیٹا ان کے پاس موجود ہے اور وہ نام سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ ویکسی نیٹڈ ہیں یا شاید چہرے دیکھ کر یہ جاننے کا انہیں فن آتا ہے۔

ریلیز کے پہلے دو تین دن میں فلم منتظمین کے مطابق ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کا کاروبار کرچکی ہے۔

اس کی وجہ واحد نئی اردو فلم کا مارکیٹ میں ہونا اور لوگوں کا بس سینیما کی یاد تازہ کرنے کا شوق ہوسکتا ہے۔

یہ فلم ایک ایسے وقت پر ریلیز ہوئی جب پاکستانی کرکٹ ٹیم بنگلہ دیش میں پانچ سال کے وقفے کے بعد موجود ہے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہی ہے۔

دونوں ممالک میں گذشتہ چند برسوں میں سارک سربراہی اجلاس اور چند دیگر وجوہات کی وجہ سے تلخیاں بڑھی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم میں بھی نہ تو بنگالیوں اور نہ ہی سکھوں کو ولن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ بدمعاش کا اعزاز واحد بھارت کو دیا گیا ہے۔ چلیں ترجیحات میں بہتری آئی ہے۔

بلوچستان کے مسئلے کی بھی تمام تر ذمہ داری بھارت اور ابھی نندن کے گریبان میں ڈالی گئی ہے، جو کہ شاید کسی حد تک درست ہو لیکن کیا ہم ماضی کی اپنی غلطیاں رقبے کے اعتبار سے اس وسیع و عریض صوبے میں دہرانے کی کوشش تو نہیں کر رہے۔

دشمن کمزوریوں اور غلطیوں کو ہی نشانہ بنا کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

فلموں سے دوسروں کی غلطیاں عیاں کی جاسکتی ہیں لیکن اپنی چھپائی نہیں جاسکتیں۔

ماضی کی ’وار‘ جیسی فلموں کے مقابلے میں جو میں آدھی چھوڑ آیا تھا یہ فلم حقیقت کے زیادہ قریب تھی اس لیے دیکھنے کے لائق ضرور ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے 50 سال مکمل ہونے پر اس طرح کی فلم وقت کا تقاضہ تھی۔

جتنا کہہ اور دکھا سکتے تھے کم از کم اتنا اس فلم میں ضرور کیا گیا ہے۔ آگے چل کر مزید بات کے امکانات اس سے بڑھے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم