افرادی قوت میں خواتین کی کم شرکت کے چیلنجز

وہ خواتین جو اپنے گھروں سے چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار قائم کرتی ہیں وہ اکثر دستیاب خدمات و سہولیات کو استعمال کرنے کی اہل نہیں ہوتیں کیونکہ انہیں مڈل مین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

کراچی میں ایک فیکٹری میں  خواتین کام کر رہی ہیں (اے ایف پی)

خواتین کی مجموعی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے اور ملکی افرادی قوت میں ان کی شرکت کو بھرپور طریقے سے ممکن بنانے کی غرض سے جس جامع اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں وہ کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں بلکہ تشویش ناک ہے۔

مختلف اعداد وشمار کے مطابق ہمارے ہاں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ یہ تعداد 2016 میں 23.8 اور 2020 میں 22.2 فیصد تھی۔

عالمی سطح پر مردوں اور خواتین کی ملازمت کے درمیان صنفی فرق میں کمی آ رہی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ فرق کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔

یہاں خوش آئند بات یہ ہے کہ ماضی میں ہمارے ملک میں خواتین نے اپنے کام کے حق کے لیے مہمات چلائیں جس کی وجہ سے ان کے مسائل پر کسی حد تک بات اور ان کے مسائل اجاگر ہونے لگے ہیں۔

یاد رہے کہ ٹریڈ یونینز نے، جو جنرل ضیا الحق سے پہلے کے دور میں صنعتی تعلقات کی ایک اہم خصوصیت تھی، خواتین کارکنوں کو متحرک اور آگے بڑھنے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا تھا۔

تاہم 1980 کی دہائی سے پاکستان میں نو لبرل معاشی پالیسیوں کے آغاز اور ٹریڈ یونینوں کے بتدریج کمزور ہونے کے باعث خواتین ورکرز کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔

جون 2021 میں ورلڈ بینک نے پشاور میں ایک تحقیق کی اور اس کی بنیاد پر کہا ہے کہ افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کو بہت حد تک کم سمجھا گیا ہے۔

انٹرنیشنل گروتھ سینٹر کے ایک حالیہ بلاگ میں بھی اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ خواتین کو ملازمتوں کی تلاش میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

معاش کے مواقع تک رسائی حاصل کرنے والوں کے لیے نیٹ ورک انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور خواتین کے پاس اکثر ایسے موثر نیٹ ورکس کی کمی ہوتی ہے جو ان کے روزگار کے لیے راستے کا کردار ادا کر سکیں، خصوصی طور پر دیہی اور دوردراز علاقوں میں رہنے والی خواتین کے لیے تو ان نیٹ ورکس تک اکثر اوقات رسائی ہی نہیں ہوتی۔

دیگر مسائل جو خواتین کی روزگار تک رسائی کو متاثر کرتے ہیں ان میں اکثر و بیشتر  کام کرنے کے لیے محفوظ نقل و حمل کی کمی ہے۔

 دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں تعلیم، ہنر اور صلاحیت کی مانگ بڑھ رہی ہے۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں خواتین کے لیے تعلیم اور ہنر حاصل کرنے کے مواقع پہلے ہی بھی بہت کم ہیں جو بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق خواتین کو تعلیم اور ہنر دے سکیں۔

ہر شعبے میں ڈیجیٹلائزیشن کا بڑھتا ہوا رجحان اور خواتین میں ڈیجیٹل لٹریسی کا فقدان ان کے لیے ملازمتوں کا حصول تقریباََ ناممکن بنا رہا ہے۔

کرونا کے دوران ہم سب نے دیکھا کہ زندگی اور روزگار کے تقریبا تمام معمولات آن لائن پلیٹ فارمز میں بدل گئے ہیں، جس کی وجہ سے کئی خواتین اپنا روزگار برقرار نہ رکھ سکیں کیونکہ ان کو آن لائن پلیٹ فارمز کے موثر استعمال کے بارے میں کوئی معلومات ہی نہیں تھیں۔

دوسری جانب، پاکستان میں خواتین کی حقوق کی تحریکوں کا جائزہ لینے سے ایک کمزوری کا پتہ چلتا ہے کہ ان تحریکوں نے خواتین کارکنوں کے مسائل پر توجہ دینے کی موثر کوشش نہیں کی۔

اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جمود کی قوتوں نے کبھی بھی ترقی پسند سیاست اور خواتین کی فعالیت کو جڑیں پکڑنے کی اجازت نہیں دی اور خواتین لیبر فورس کے متحرک ہونے سے معاشی حقوق پر مبنی لابنگ کی بجائے قانون سازی اور ریاستی سرگرمی پر توجہ مرکوز کی ہے۔

اس کے باوجود خواتین کی تحریک نے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے حکومتی اقدامات کی وقتاً فوقتاً حمایت کی ہے لیکن یہاں اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ اب تک کیے جانے والے اقدامات تسلی بخش اور دور رس نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں شہری علاقوں میں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت کم ہے لیکن دیہی علاقوں میں یعنی زرعی شعبے میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔

لبرلائزیشن کے بعد لیبر فورس میں خواتین کی موجودگی کی نشاندہی کرنے والی ایک خصوصیت غیررسمی اور معاہدہ کا کام ہے۔

زیادہ تر خواتین جو شہری علاقوں میں کام کرتی ہیں وہ گھریلو ملازم ہیں جہاں انہیں ملازمت اور سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے اور وہ اکثر و بیشتر استحصالی حالات میں کام کرتی ہیں۔

خواتین کے 72 فیصد غیر زرعی کام، غیررسمی شعبے میں آتے ہیں جو کم اجرت والے اور بغیر کسی مناسب نمائندگی کے ہوتے ہیں۔

خواتین دیہی علاقوں میں زیادہ تر غیررسمی زرعی کام سرانجام دیتی ہیں جو کہ لیبر قوانین کی پابندی سے باہر ہے۔ اور افسوس کہ زراعت میں خواتین کا بہت سا کام آج بھی بلامعاوضہ ہے۔

رسمی شعبے میں بھی خواتین کو بیشتر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے نیز ترقی کرنے کے موقعے بھی کم ہی ملتے ہیں جیسے کہ ملازمت کرنے والی کل خواتین میں سے بمشکل ایک فیصد مینیجر کے عہدوں پر فائز ہوتی ہیں جب کہ مردوں میں سے تقریباً تین فیصد کو انتظامی عہدوں پر ترقی دی جاتی ہے۔

زیادہ تر خواتین (تقریباً 92 فیصد) جو پیشہ ورانہ ملازمت کرتی ہیں وہ استاد ہیں۔ ان کی اکثریت پرائمری سطح پر پڑھاتی ہے۔ بطور اساتذہ کم از کم اجرت (20,000 روپے) سے بھی کم کماتی ہیں۔

خواتین صحت کے شعبے میں بھی مختلف عہدوں مثلا دائی، پولیو ورکر، لیڈی ہیلتھ ورکر، نرس اور مددگار کے طور پر کام کرتی ہیں۔

لیبر فورس سروے کے مطابق صنعتی شعبے میں خواتین کی اجرت مرد کارکنوں کے مقابلے میں 20 سے 50 فیصد کم ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے ملک نے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے غیرامتیازی کنونشنز کی توثیق کی ہے لیکن اب تک خواتین کے لیے مساوی اجرت اور موقعوں کی ضمانت کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی جو ملازمت دینے والے اداروں کو پابند کر سکیں۔

تاہم ہمارے ہاں اب تک صرف دو ایسے قوانین ہیں جو ملازمت میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک زچگی کی چھٹیوں سے متعلق ہے اور دوسرا کام کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بارے میں ہے۔

ان دو قوانین پر ایک حد تک عمل درآمد کو ممکن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔

سندھ میں ویمن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ پاس کیا گیا ہے جس کی ضرورت دوسرے صوبوں میں بھی ہے۔

تاہم ہمارے ہاں مجموعی طور پر خواتین کے حامی قوانین کا نفاذ غیرموثر اور پیچیدہ ہے۔ اور اس سلسلے میں دور رس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

ملازمت کے شعبوں میں خواتین ورکرز کی کمی کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) میں بھی ان کی نمائندگی کم ہے۔

خواتین کو اکثر قرضوں تک رسائی حاصل نہیں ہوتی اور اکثریتی خواتین کے پاس بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہوتا۔ انہیں عوامی لین دین اور نقل و حرکت پر پابندیوں کا سامنا درپیش ہے۔

وہ خواتین جو اپنے گھروں سے اپنے چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار قائم کرتی ہیں وہ اکثر دستیاب خدمات و سہولیات کو استعمال کرنے کی اہل نہیں ہوتیں کیونکہ انہیں اکثر مڈل مین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم بہت کم خواتین کاروباریوں کو دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ کم تعداد ہمارے لیے ایک امید کی کرن ضرور ہے۔

ہماری حکومتی و ریاستی اداروں کی طرف سے خواتین کارکنوں کے مسائل کے حل کے لیے تسلی بخش اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔

لہذا جہاں کہیں خواتین ورکرز اجتماعی طور پر منظم ہونے کے لیے اکٹھی ہوں، وہاں متعلقہ اداروں کو ان کے مسائل نہ صرف سننے چاہیے بلکہ ان کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حال ہی میں خواتین ملازمین میں یونینز بنانے کا رجحان پیدا ہوا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ سندھ میں خواتین سمیت زرعی مزدوروں کی یونین بنائی گئی ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نے بھی اپنی یونین رجسٹر کروا لی ہے۔ سماجی تحریکیں جیسے کہ سندھ میں فشر فوک فورم اور پنجاب میں انجمن مزارین خواتین کی آواز کو بلند کرتی ہیں۔

خواتین اساتذہ اور نرسوں نے بھی منظم ہونا شروع کر دیا ہے۔ ان اقدامات سے خواتین کے کام کو فروغ دینے اور معاشی طور پر بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔

ایسے میں ان خواتین ملازمین کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اداروں کو ان کی داد رسی کے لیے اگے بڑھنا ہوگا۔

بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں عام طور پر افرادی قوت میں خواتین کی شرکت اور ان کارکنوں کے مسائل پر کم ہی بات ہوتی ہے۔

جب حکومتی ادارے ان مسائل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے تو عوام اور خصوصا خواتین کارکنوں میں اپنے مسائل کو بیان کرنے اور موثر طریقے سے ایسے متعلقہ اعلی حکام تک پہنچانے میں موثر کردار ادا کرسکیں گی۔

ان تمام مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دوررس اثرات پر مبنی طویل المدتی منصوبہ بندی اور ایک نیا سماجی، سیاسی اور اقتصادی معاہدہ طے پایا جائے جو طویل عرصے سے نظر انداز کیے جانے والے مسائل جیسے کہ ملک کی جی ڈی پی کی ترقی کے لیے اہم لیبر فورس میں خواتین کی کم شمولیت کو حل کر سکے۔

اس کے نتیجے میں نہ صرف خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنایا جاسکے گا بلکہ مجموعی طور پر ہمارے معیشت کو بہتر بنانے کے لیے باصلاحیت افرادی قوت بھی میسر آئے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر