کینیڈین ویمن فاؤنڈیشن اور ٹورنٹو کی ایک اشتہار چلانے والی کمپنی کو گذشتہ سال اس وقت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ’مدد کے لیے سگنل‘ یعنی سگنل فار ہیلپ نامی ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ مہم ایسی خواتین کے لیے بنائی گئی تھی جو گھریلو تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔
ایڈورٹائزنگ کمپنی کے صدر ڈیوڈ ٹوٹو کہتے ہیں کہ ’اس سوال پر بہت بحث ہوئی کہ مدد کے لیے بھیجا جانے والے خفیہ اشارہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا اشارہ ہونا چاہیے تھا جو زیادہ جانا پہچانا نہ ہو تاکہ حملہ آور اسے پہچان نہ سکیں۔ یا یہ ایسا اشارہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے سمجھ سکتے ہوں۔‘
کینیڈین خبر رساں ادارے سی بی سی کے مطابق انہوں نے موخر الذکر پر اتفاق کیا جس کی بدولت شاید گذشتہ ہفتے امریکی ریاست شمالی کرولائنا میں ایک گمشدہ نو عمر لڑکی کی زندگی بچ گئی۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس نوجوان لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو مطلع کیا اور پھر پولیس اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس کی زندگی بچا لی۔
انہوں نے بظاہر پریشانی کی نشاندہی کرنے والا یہ اشارہ تب سیکھا تھا جب اس اشارے کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر وائرل ہوئی تھی۔
کینیڈا کی ویمن فاؤنڈیشن کی تعلقات عامہ کی نائب صدر اینڈریا گنراج کہتی ہیں کہ ’یہ جاننا بہت پر سکون تھا کہ یہ نوجوان لڑکی یہ اشارہ دے سکیں اور دیکھنے والوں نے اس کو سمجھا اور وہ مدد کے لیے پولیس کو بلا سکے۔‘
ہاتھ کا یہ اشارہ آسان ہے
اپنے ہاتھ کے انگوٹھے کو اپنی مٹھی سے ملا لیں اور پھر اس کو اپنی چار انگلیوں میں چھپا لیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے وہ خواتین جنہیں گھریلو تشدد کا سامنا ہو اس بات کی نشاندہی کر سکتی ہیں، جو وہ ویڈیو کال، ٹیکسٹ پیغام اور ای میل کے ذریعے نہیں کرسکتیں کیونکہ اس کا کوئی اس کو سراغ نہیں رہنا چاہیے۔
لیکن لوریل کاؤنٹی کے شیرف کے نائب گلبرٹ اکیارڈو کا کہنا ہے کہ چار نومبر کو یہ اشارہ ایک الگ انداز میں استعمال کیا گیا۔ کینٹکی میں ایک موٹر سائیکل سوار نے پولیس کو بتایا کہ اس نے ایک ایسی نوجوان لڑکی کو دیکھا ہے جو ایک ہاتھ سے کسی مشکل میں پھنسے ہونے کا اشارہ دے رہی تھی اور اسے مدد کی ضرورت تھی۔
اکیارڈو کے مطابق ہم نہیں جانتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ٹک ٹاک کے اس اشارے کا کیا مطلب ہے لیکن یقینی طور پر وہ موٹر سائیکل سوار اس بات سے واقف تھے۔
اکیارڈو کے مطابق پولیس جلدی سے اس گاڑی تک پہنچی اور انہوں نے اس کے ڈرائیور کو گرفتار کر لیا۔ 61 سالہ جیمز ہربرٹ برک کو حبس بے جا میں رکھنے اور ایسے جنسی سامان کی ملکیت رکھنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں انہوں نے 12 سال سے زائد لیکن 18 سال سے کم عمر کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گاڑی سے برآمد ہونے والی 16 سالہ لڑکی شمالی کیرولائنا کے شہر ایشویل سے لاپتہ ہوئی تھیں اور پھر وہ اس مشتبہ شخص کے ساتھ کینٹکی تک پہنچ چکی تھیں۔
شیرف کے مطابق ’ملزم نے یہی سمجھا کہ وہ لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ ٹک ٹاک سگنل دے رہی تھیں یہ بتانے کے لیے وہ کسی مشکل میں ہیں۔‘
’یہ بہت اچھی بات ہے کہ موٹر سائیکل سوار نے ان کی بات کو سمجھ لیا اور 911 پر کال کر دی۔ یہ بہت اچھا نتیجہ تھا۔‘
وبا کے دوران گھریلو تشدد میں اضافہ
سگنل فار ہیلپ نامی یہ مہم گذشتہ سال لانچ کی گئی تھی۔ ایسا کوویڈ 19 کی وبا کے دوران بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کی رپورٹس کے بعد کیا گیا تھا۔
اینڈریا گنراج کا کہنا ہے کہ ’لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے ایسی صورت حال کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ تھے کہ وہ خود پر تشدد کرنے والے کے ساتھ پھنس چکے ہوں لیکن انہوں نے ویڈیو کالز سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ہاتھ کا اشارہ ایک آسان حل تھا جسے آپ کسی متشدد فرد کے ساتھ گھر میں پھنسے ہونے پر کوئی ڈیجیٹل سراغ چھوڑے بغیر مدد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘