’خوش نصیب سٹیپی عقاب‘ جسے پاکستان میں ٹریکر لگایا گیا

پرندوں کی آزادی کے مشن میں حصہ لینے والے ریپٹر سینٹر ڈائریکٹر کامران یوسفزئی کے مطابق ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی پرندے کو سیٹلائٹ جی پی ایس ٹریکر لگایا گیا ہے۔ جس سے ان نایاب پرندوں کے مسکن، روزمرہ کی اڑان اور ان کے شکار کے بارے میں ڈیٹا مل سکے گا

سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے چھ مہینے قبل کراچی سے زخمی حالت میں تحویل لیے گئے دو ’سٹیپی‘ عقابوں کو شہر کے مضافات میں گڈاپ ٹاؤن کے تھدھو ڈیم کے پاس اتوار کو آزاد کر دیا گیا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ اور شکاری پرندوں کی دیکھ بھال کرنے والے مرکز ریپٹر سینٹر نے مشترکہ طور پر پرندوں کو فضا میں آزاد کرنے سے قبل ان کی پشت پر جانوروں کی براہ راست لوکیشن کا پتہ لگانے والا جدید سیٹلائٹ جی پی ایس ٹریکر بھی لگایا ہے۔  

پرندوں کی آزادی کے مشن میں حصہ لینے والے ریپٹر سینٹر ڈائریکٹر کامران یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی پرندے کو سیٹلائٹ جی پی ایس ٹریکر لگایا گیا ہے۔ جس سے ان نایاب پرندوں کے مسکن، روزمرہ کی اڑان کے راستوں اور ان کے خوراک والی جگہوں کے بارے میں ڈیٹا مل پائے گا جس کی مدد سے ہماری ریسرچ ٹیم ایک سائنسی پیپر بنا سکے گی۔‘ 

کامران یوسفزئی کے مطابق چھ ماہ قبل جب یہ پرندے ان کے مرکز پر لائے گئے تھے، تب ان کے پر ٹوٹے ہوئے تھے کیوں کہ انہیں پنجروں میں رکھا گیا تھا اور ان کی صحت بہت خراب تھی۔

’ان چھ، سات ماہ کے دوران نہ صرف ان کا علاج کیا گیا بلکہ ہر طرح سے خیال رکھا گیا تاکہ ان کے ٹوٹے ہوئے پر دوبارہ سے نکل آئیں۔ جب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے اور ان کے اڑنے کی صلاحیت بھی بحال ہوگئی تو انہیں آزاد کیا گیا، تاکہ وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔‘

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق ان میں سے ایک سٹیپی ایگل نر اور ایک مادہ تھی، انہیں رہائی سے پہلے فرضی نام بھی دیے گئے۔ نر کو سدورو (سندھی زبان کا لفظ جس کے معنی ہیں خوش نصیب) اور مادہ کو سدوری کا نام دیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جاوید احمد مہر نے بتایا ’ویسے تو جب کوئی پرندہ پکڑا جاتا ہے تو رہائی ممکن نہیں ہوتی مگر یہ زخمی حالت میں تھے، ان کے علاج کے لیے نہ صرف مرکز مل گیا بلکہ ان کی نگرانی کے لیے ماہرین بھی مل گئے، اس لیے یہ پرندے واقعی میں خوش نصیب تھے، تبھی انہیں محکمہ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے ’خوش نصیب‘ کا نام دیا گیا۔‘  

جاوید احمد مہر  کے مطابق موسم سرما کے دوران ٹھنڈے ممالک سے کئی اقسام کے پرندے بہتر موسم اور خوراک کی تلاش میں گرم ممالک بشمول پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ان میں ریپٹر یا شکاری پرندے بھی شمال ہوتے ہیں۔ اور یہ پرندے جس راستے سے سفر کرتے ہیں اس راستے کو ’انڈس فلائے زون‘ کہا جاتا ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاوید احمد مہر کے مطابق ’ان پرندوں کو گزشتہ سال کچھ لوگوں نے اس لیے پکڑا تھا تاکہ وہ بڑے شہروں میں کسی کو باز کا نام پر بیچ سکیں، مگر یہ پرندے بک نہ سکے اور حالیہ سال مئی کے مہینے میں ہماری ایک ٹیم نے انھیں اپنی حراست میں لیا تھا۔ مگر اس وقت شدید گرمی کے باعث انھیں رہا نہیں کیا جاسکا تھا۔‘  

’ان پرندوں کو گزشتہ سال کسٹم کی جانب سے پکڑے گئے بازوں کی بحالی کے لیے بنائے گئے مرکز  میں ایک غیر سرکاری تنظیم ریپٹر سینٹر فار کنزرویشن کے ماہرین کے حوالے کیا گیا اور چھ مہینوں تک ان کے علاج کے بعد اب انھیں رہا کیا گیا ہے۔‘  

’خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے آج ایک سنگ میل عبور کیا ہے۔ان دونوں سٹیپی ایگلز کو سیٹلائٹ ٹیگ لگانے سے ہم ان کی نقل و حرکت کو ریکارڈ کرسکیں گے اور ان کے بچ جانےکی وجہ سے پاکستان اور دیگر ممالک میں ان کی نقل حرکت کو بھی نوٹ کیا جا سکے گا۔‘  

واضح رہے کہ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے اسٹیپی ایگل کو خطرے سے دوچار جانوروں کی سرخ فہرست یا ریڈ لسٹ میں شمال کرتے ہوئے اسے نایاب قرار دیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان