موٹروے پر چالان کی مدد سے ایک تاجر کو ’اغوا‘ کرنے والا کیسے پکڑا گیا؟

اغواکاروں نے سمیع اللہ سے پہلے 50 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ جو بعد میں کم کر کے 20 لاکھ کر دیے گئے۔

لیہ کے تاجر سمیع اللہ چند ہفتے قبل اپنے شہر سے ٹیکسی کے ذریعے اسلام آباد کا سفر کر رہے تھے، جب راستے میں کسی مقام پر نامعلوم افراد نے ڈرائیور سمیت انہیں تاوان کی غرض سے اغوا کر لیا(اے ایف پی فائل)

موٹر وے (ایم ٹو) پر تیز رفتاری کے باعث کیا جانے والا چالان اس وقت دلچسپ صورت اختیار کر گیا جب ضلع بھکر کی پولیس نے اسی چالان کی مدد سے ایک تاجر کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث ایک ملزم کو گرفتار کر لیا۔

صوبہ پنجاب کے شہر لیہ کے تاجر سمیع اللہ چند ہفتے قبل اپنے شہر سے ٹیکسی کے ذریعے اسلام آباد کا سفر کر رہے تھے، جب راستے میں کسی مقام پر نامعلوم افراد نے ڈرائیور سمیت انہیں تاوان کی غرض سے اغوا کر لیا۔

سمیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اغوا کاروں کو تاوان تو دینا پڑا لیکن موٹر وے پولیس کے چالان کی وجہ سے ان کا سراغ ملا اور ان میں سے ایک گرفتار بھی ہو گیا۔

سمیع اللہ کے مطابق ’ٹیکسی ڈرائیور کی عقل مندی اور موٹر وے پولیس کے چالان نے سمجھیں کہ میرے لیے معجزہ ہی کر دیا۔‘

پولیس کے مطابق پنجاب کے ضلع بھکر میں تھانہ سرائے مہاجر کے ایس ایچ او اشرف اعوان نے موٹر وے پولیس کے چالان کی مدد سے سمیع اللہ کے اغواکاروں میں سے ایک کو گرفتار کر لیا ہے۔

سمیع اللہ کے اغوا کے کیس کو دلچسپ اور حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے اشرف اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس کیس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اغوا ہونے والوں کا تعلق لیہ سے ہے، انہیں ضلع میانوالی کے کسی علاقے سے اٹھایا جاتا ہے، تاوان کی ادائیگی اسلام آباد کے بلیو ایریا میں ہوتی ہے اور ایک اغوا کار ضلع بھکر سے گرفتار ہوتا ہے۔‘

اشرف اعوان نے مزید کیا کہ ’اغوا کاروں تک پہنچنے میں موٹر وے پولیس کے چالان نے حیرت انگیز طور پر تفتیش میں سب سے زیادہ مدد کی۔ جب چالان لینے والے کی شناخت ہو گئی تو باقی کام اس کے موبائل نمبر کو ٹریس کر کے کر لیا گیا۔‘

ایس ایچ او اشرف اعوان کے مطابق سمیع اللہ کو اغوا کرنے والے 11 افراد تھے، جو اس قسم کی دوسری وارداتوں میں بھی مطلوب ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس گروہ کا ایک رکن گرفتار ہو چکا ہے اور سرائے مہاجر پولیس دوسرے ارکان کا پیچھا کر رہی ہے۔

اغوا، تاوان اور رہائی

سمیع اللہ نے سرائے مہاجر تھانے میں درج ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ لیہ سے اپنے بااعتماد ٹیکسی ڈرائیور محمد فیاض کی گاڑی میں اسلام آباد کا سفر کر رہے تھے۔

’راستے میں میری آنکھ لگ گئی اور گاڑی کے جھٹکے سے رکنے پر میں جاگا تو میں نے دیکھا ایک دوسری گاڑی نے ہمارا راستہ روکا ہوا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس گاڑی سے ہاتھ میں پستول لیے ایک شخص ہماری گاڑی کی طرف بڑھا اور ہمیں گاڑی سے اترنے کا اشارہ کیا۔‘

دوسری گاڑی میں موجود چار نامعلوم افراد نے سمیع اللہ کو اپنے ساتھ سوار کیا اور انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا، جبکہ ڈرائیور فیاض کے ساتھ دو لوگ انہی کی گاڑی میں بیٹھے اور نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔

سمیع اللہ کے مطابق: ’وہ لوگ کبھی خود کو سرکاری محکمے والے ظاہر کرتے اور کبھی کہتے کہ وہ بعض کالعدم تنظیموں کے لیے چندہ اکٹھا کر رہے ہیں۔‘

اغواکاروں نے سمیع اللہ سے پہلے 50 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ جو بعد میں کم کر کے 20 لاکھ کر دیے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق سمیع اللہ کو تقریباً چار پانچ گھنٹوں کے لیے نامعلوم مقام پر ایک گھر میں قید بھی رکھا گیا، جہاں ان پر تشدد کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیہ کے تاجر نے آخر کار 20 لاکھ روپے اغواکاروں کو ادا کرنے کی ہامی بھر لی جس کے لیے انہوں نے اسلام آباد میں اپنے ایک دوست کو فون کر کے قرض مانگا۔

پیسوں کی ادائیگی اور مغویوں کی آزادی کے لیے اغوا کاروں نے اسلام آباد کے بلیو ایریا کا انتخاب کیا، جہاں سمیع اللہ کے دوست نے رقم پہنچانا تھی۔

سمیع اللہ کے مطابق: ’سب کچھ خیر خیریت سے ہو گیا۔ انہیں پیسے مل گئے اور مجھے راولپنڈی میں موٹر وے چوک کے پاس چھوڑ دیا گیا۔ جہاں ڈرائیور فیاض اپنی گاڑی کے ساتھ موجود تھا۔‘

چالان کا کیا معاملہ ہے؟

تاوان کی ادائیگی اور رہائی کے اگلے روز سمیع اللہ لیہ میں اپنے گھر پر تھے۔ جہاں ڈرائیور فیاض ان سے ملنے آئے اور اغوا کاروں کے ساتھ اپنے گزرے وقت کی روداد سنائی۔

سمیع اللہ کے مطابق تاوان کی رقم اور ادائیگی کا مقام طے ہونے کے بعداغوا کار گروہ کے کچھ رکن فیاض کو اسلام آباد لا رہے تھے لیکن انہیں راستہ معلوم نہیں تھا اور انہیں کافی تاخیر ہو رہی تھی۔

ڈرائیور فیاض کے مطابق: ’لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ (اغواکار) موٹر وے کے ذریعے اسلام آباد آ رہے تھے اور گاڑی بہت تیز تھی۔ جو اغوا کاروں کا ایک ساتھی ہی چلا رہا تھا۔‘

فیاض نے سمیع اللہ کو بتایا کہ ایم ٹو پر اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب گاڑی کو موٹر وے پولیس نے تیز رفتاری کے باعث روکا تھا اور ان کا چالان بھی کیا۔

فیاض کی یہ بات سن کر سمیع اللہ نے موٹر وے پولیس سے رابطہ کر کے اس ٹوکن (چالان) کی کاپی نکلوائی جو گاڑی چلانے والے اغواکار کے نام پہ کٹا تھا۔

موٹروے پولیس نے ڈرائیونگ لائسنس کی مدد سے اغوا کار کی تفصیلات نکالیں، اور نام اور پتہ وغیرہ معلوم بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ وہ مجرمانہ کاروائیوں میں بھکر پولیس کو مطلوب ہے۔

سمیع اللہ نے بھکر کے تھانہ سرائے مہاجر میں ایف آئی آر درج کرائی جس کے بعد پولیس اور سی آئی اے کی مشترکہ کاوشوں سے ایک اغوا کار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یوں موٹر وے پر تیز رفتاری کے باعث کاٹے گئے ایک چالان نے اغواکاروں کے گروہ تک پہنچنے میں پولیس کی مدد کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان