کسی لاپتہ فرد کو ٹریس نہیں کیا جاسکا، یہ آرٹیکل چھ کا جرم ہے: عدالت

صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی کے کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا جو کام تھا، وہ اس نے نہیں کیا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (تصویر:  بشکریہ اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ)

مبینہ طور پر لاپتہ صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد میں سے آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جاسکا، یہ سیدھا آرٹیکل چھ کا جرم ہے۔‘

مدثر نارو اور دیگر کی بازیابی کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

اٹارنی جنرل خالد خان ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ مدثر نارو کی والدہ اور بیٹے کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرائی گئی اور وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ ’حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے۔ عدالت سے استدعا ہےکہ کچھ وقت دیا جائے۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ڈھونڈے اور نہ ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔ ریاست کی خواہش ہی نہیں ہے۔ وزیر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ قانون بنا رہے ہیں۔ یہاں قانون بنانے کی توضرورت ہی نہیں۔‘

جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسا نہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دورمیں شروع ہوا۔ یہ معاملہ اس حکومت کو وراثت میں ملا ہے۔’

مکالمہ

سماعت کے دوران چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل کے مابین پاکستان کی تاریخ اور لاپتہ افراد کے معاملے پر مکالمہ ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، دہشت گرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مارسکتے۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ والا کسی کو جا کر اٹھا لے۔‘

’لوگ چار چار سال سے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے پاس جا رہے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا جو کام تھا وہ اس نے نہیں کیا۔‘

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’المیہ یہ ہے کہ ہم نے جغرافیائی حالات اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے۔‘

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کل کو ایک ایس ایچ او کہےگا کہ فلاں شخص اس کے خلاف بات کر رہا ہے تو اسے اٹھا لو۔ عدالت کہہ سکتی ہے کہ شہری جس دور میں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں۔‘

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کے روبرو کہا کہ ’آرٹیکل چھ کے جرم میں جسے سزا ہوئی، ہم تو اس سزا پر عمل درآمد نہیں کر پائے۔‘

آئین پاکستان کے آرٹیکل چھ کے متن کا عنوان ’سنگین غداری‘ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے پر کسی کا احتساب نہیں ہو رہا۔ ہر کوئی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔ ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر وہاں لگا دیں۔‘

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر کیوں لگائی جائیں؟ کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں۔1970 سے یہاں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے، اگر ذمہ داروں کا تعین کرلیا جائے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’آپ بتائیں کہ عدالت کیا کرے؟ اگر ریاست اپنا کردار ادا کرتی تو لاپتہ شخص کا بچہ یہاں نہیں آتا۔ عدالت توقع کر رہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔‘

دسمبر  کے اوائل میں آباد ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ لاپتہ صحافی مدثر نارو کو 13 دسمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگلی سماعت سے پہلے مدثر نارو کے والدین اور بچے کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو یقینی بنایا جائے۔

دوران سماعت ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس معاملے کا ایک پس منظر ہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں لوگوں نے اپنی مرضی سے بارڈر کراس کیا ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس کو روکا جائے۔‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے مزید کہا کہ ’مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ انہیں لاپتہ کردیا جائے۔ صحافی کا کام ہے کہ وہ تنقید کرے، ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں کی جاسکتی۔‘

میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اسلام آباد سے ایک شخص کو اٹھا کر لے گئے، اس نے بعد میں بیان دیاکہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ لاپتہ افراد کی تصاویر صفحہ اول پر ہوں۔ یا تو چیف ایگزیکٹو ذمہ داری لیں یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔‘

سماعت کے دوران لاپتہ افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ ملک میں ہونے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں۔ میڈیا پر دباؤ ہے جو لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی مشکلات نہیں دکھا سکتا۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔ عدالت کی معاونت کریں کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟‘

بقول جسٹس اطہر من اللہ: ’یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ ردعمل واضح اور نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا ریاستی پالیسی نہیں ہے۔ عدالت تو ایک فیصلہ ہی دے سکتی ہے،آپ معاونت کریں، ہم آرڈر جاری کریں گے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’عدالت اس بات کو سراہتی ہے کہ وزیراعظم نے مدثرنارو کی فیملی سے ملاقات کی۔ ریاست کے اندر سے شہریوں کا اس طرح لاپتہ ہو جانا کرپشن کی سب سے بدترین قسم ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میرا موقف اس معاملے پر ہمیشہ واضح رہا ہے۔ تھوڑا سا وقت مزید دے دیں، دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘

جس پر عدالت نے وقت دیتے ہوئے سماعت 18 جنوری تک ملتوی کر دی۔

مدثر نارو کون ہیں؟

مدثر محمود نارو ایک صحافی، شاعر، ترقی پسند مصنف اور رضا کار ہیں جو 2018 سے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

مدثر 2018 میں خیبر پختونخوا کے علاقے بالاکوٹ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہوئے تھے۔ وہ وہاں اپنی اہلیہ صدف اور چھ ماہ کے بیٹے کے ہمراہ سیر و سیاحت کی غرض سے گئے تھے۔ ان کی اہلیہ صدف چغتائی کا تاہم اس سال مئی میں انتقال ہوگیا تھا۔

رواں برس مئی میں مدثر نارو کی اہلیہ صدف کا دل کے دورے کے باعث انتقال ہو گیا، جس کے بعد مدثر کی بازیابی کے لیے بلند ہونے والی آوازوں میں شدت آ گئی ہے۔ ان کی بوڑھی والدہ اور تین سالہ بیٹا اب انصاف کے لیے عدالت کے چکر لگا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان