کانفرنس کے لیے پاکستان، سعودی عرب کے شکر گزار: امیر خان متقی

پاکستان میں ہونے والی او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے حوالے سے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ یہ ہماری اور دیگر ممالک کے درمیان رابطے کا سبب ہو گی۔ ہماری توقع ہے کہ کانفرنس کے نتائج بہتر ہوں گے۔

پاکستان میں ہونے والی او آئی سی وزارئے خارجہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچنے والے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے اس کانفرنس کے لیے بھرپور تیاری کی ہے اور اس کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ قدر کے لائق ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے جو خدمت کی ہے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘
امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ’ہماری توقع یہ ہے کہ ایک تو رسمی تعلقات میں ترقی آئے گی۔ سردیوں کی آمد کی وجہ سے افغانستان کو امداد کی ضرورت ہے۔ خصوصاً صحت کے حوالے سے اور کرونا دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی مدد کی جائے گی۔‘

ان کے مطابق ’اس کانفرنس کے بعد کابل میں سیاسی اور دیگر دفاتر کھولے جائیں گے۔ اور یہ ہماری اور دیگر ممالک کے درمیان رابطے کا سبب ہو گا۔ ہماری توقع ہے کہ کانفرنس کے نتائج بہتر ہوں گے۔‘

امیر خان متقی کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان نے اس کانفرنس کے لیے بھرپور تیاری کی ہے اور اس کی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے جو خدمت کی ہے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘

 

پاکستان نے دنیا کو افغانستان کی اندرونی صورت حال سے متعلق غفلت نہ برتنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام نئے امتحان سے دوچار ہے اور انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے متعلق غفلت جنگ زدہ ملک میں بحران کو جنم دے سکتی ہے، جس سے نہ صرف یہ خطہ بلکہ پورا یورپ متاثر ہو گا۔

’بھوک افلاس اور خراب معیشت کی وجہ سے افغانستان سے معاشی پناہ گزینوں کا انخلا ہو سکتا ہے، اس لیے دنیا کو صحیح قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان بہت نازک صورت حال سے گزر رہا ہے اور کسی قسم کی غیر ذمہ داری جنگ زدہ ملک میں حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گی۔

یاد رہے کہ اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کی کونسل آف فارن منسٹرز کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران پر گفتگو ہو گی۔

اجلاس میں اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کے علاوہ، امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، بین الاقوامی مالیاتی اور امدادی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے 437 ڈیلیگیٹس رجسٹریشن کروا چکے ہیں جبکہ آج اسلامی ممالک کے سینیئر حکام اتوار کو ہونے والے وزرا خارجہ کے اجلاس کا ایجنڈا طے کریں گے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ سے دنیا کو افغانستان کی صورت حال سے متعلق یاد دہانی کرواتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں سوچ بدل رہی ہے اور امریکہ اور یورپی یونین کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کابل میں کام کرنے والے 39 امریکی سفارت کاروں کا افغانستان کی صورت حال سے متعلق امریکی وزیر خارجہ کو خط ثبوت ہے کہ پاکستان کے موقف کے حق میں نئی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت کاروں نے اپنی حکومت کو افغانستان سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا کہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کی 38 ملین آبادی کی زندگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ملک میں خوشحال زندگی گزار سکیں۔

’ہم چاہتے ہیں کہ افغان پناہ گزین باعزت طریقے سے واپس اپنے ملک جائیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب افغانستان کی معیشت بہتر ہو، عوام کی صلاحیت بڑھائی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان تاریخ کے ایک دہانے پر کھڑا ہے اور دنیا کو اس سلسلے میں صحیح اقدامات اٹھانا ہوں گے بصورت دیگر صورت حال بگڑ سکتی ہے اور جنگ زدہ ملک ایک بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان افغانستان سے متعلق اتفاق قائم کرنے میں کامیاب ہو گا، اور کل کے غیر معمولی اجلاس کے نتیجے میں دنیا افغان عوام کی مشکلات حل کرنے کے لیے سوچ میں تبدیلی لائے گی۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق پاکستان مسلم ممالک کو اکٹھا کر رہا ہے تاکہ افغانستان کو معاشی اور انسانی تباہی سے بچایا جا سکے اور ساتھ ہی وہ ہمسایہ ملک افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ بیرون ملک اپنی ساکھ بہتر بنائیں۔

اگست کے وسط میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد عالمی برادری نے کابل انتظامیہ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

شاہ محمود قریشی کا ایک علیحدہ بیان میں کہنا ہے کہ اسلامی وزرائے خارجہ کے اجلاس کا مطلب طالبان انتظامیہ کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اتوار کو اجلاس کے لیے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وہ کسی مخصوص گروپ کی بات نہیں کر رہے بلکہ وہ افغان عوام کی بات کر رہے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم ویلسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کے مطابق او آئی سی ممالک اس سے زیادہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مغربی ملکوں کا طالبان کے ساتھ رابطہ مشکل ہے۔ اس قسم کے رابطے کا مطلب 20 سالہ جنگ میں شکست تسلیم کرنا ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے لیے یہ’فاتح کی حیثیت سے رابطے کے لیے اہل ہونے کے حوالے سے حتمی اطمینان ہو گا۔‘

کگلمین کے مطابق: ’طالبان نے مغرب اور اس کی طاقت ور افواج کو شکست دی اوران کے افراتفری کے شکار اور ذلت آمیز حتمی انخلا کے ذریعے انہیں نقصان پہنچایا۔

’مغرب کے لیے واپس مڑ کر طالبان کے ساتھ صلح کر لینا اپنی شکست کو درست قرار دینے مترادف ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان