’شاید خدا نے روز قیامت ہی ملنا ہماری قسمت میں لکھا ہے‘

چار دیہاتوں کے رہائشی پچھلی کئی دہائیوں سے بھارت اور پاکستان سے ترتُک-خپلو روڈ کھولنے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں تاکہ 1947 اور 1971 میں اپنے خاندانوں سے بچھڑنے والے لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں۔

سکردو - کارگل اور خپلو - ترتُک راستوں کی بحالی  مقامی لوگوں کا ایک بنیادی اور دیرینہ مطالبہ ہے (سجاد کارگلی)

’ہم پچھلے 50 برسوں سے گلگت بلتستان میں رہائش پذیر اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کے لیے ترس رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جب بھارت اور پاکستان نے پونچھ-راولاکوٹ اور سری نگر-مظفرآباد راستے کھولے تو ان راستوں سے سفر کرنے کی ہمیں یہ کہہ کر اجازت نہیں دی گئی کہ آپ لوگ کشمیری نہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ شاید خدا نے روز قیامت ہی ملنا ہماری قسمت میں لکھا ہے۔‘

یہ الفاظ بھارت کے زیر انتظام لداخ میں سلسلہ کوہ قراقرم کے دامن میں بہنے والے دریائے شیوک کے کنارے پر آباد تیاکشی نامی گاؤں کے رہائشی غلام حسین گلو کے ہیں۔

ان کا یہ گاؤں لداخ کے دارالحکومت لیہہ سے تقریباً 190 کلو میٹر دور وادی نوبرا میں واقع ہے۔

1971 کی مختصر جنگ کے دوران بھارت نے غلام حسین گلو کے گاؤں تیاکشی سمیت گلگت بلتستان کے چار دیہات (دیگر تین دیہات ترتُک، تھنگ اور چلونکھا) پر قبضہ کر کے ان کو اپنی حدود میں شامل کر لیا تھا۔

وادی نوبرا، خاص طور پر ان چار دیہاتوں کے رہائشی، پچھلی کئی دہائیوں سے بھارت اور پاکستان سے ترتُک – خپلو روڈ کھولنے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں تاکہ 1947 اور 1971 میں اپنے خاندانوں سے بچھڑنے والے لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں۔

ایسا ہی مطالبہ لداخ کے ضلع کارگل کے مکینوں کا بھی ہے جو کارگل کو گلگت بلتستان میں سکردو سے ملانے والی تاریخی کارگل-سکردو روڈ کو کھولنے کا سالہا سال سے نہ صرف مطالبہ کرتے آئے ہیں بلکہ اس مطالبے کو منوانے کے لیے بار بار سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کرتے ہیں۔

شیخ ناظر مہدی محمدی لداخ کی ایک معروف مذہبی و سماجی تنظیم انجمن جمعیت العلما اثنا عشریہ کے صدر ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لداخ اور گلگت بلتستان میں 14 ہزار سے زائد لوگ ایسے ہیں جو کارگل-سکردو اور ترتُک-خپلو روڈ کے مسلسل بند رہنے کے سبب اپنے بچھڑے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں سے ملنے سے قاصر ہیں۔

’ماضی میں ان راستوں بالخصوص کارگل-سکردو روڈ کا استعمال تجارتی سفر کے لیے ہوتا تھا کیوں کہ یہ قدیم سلک روٹ یا شاہراہ ریشم کا حصہ تھے۔ ان کی وجہ سے کارگل ایک تجارتی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ پھر جب یہ راستے 1947 میں بند کر دیے گئے تو کارگل مانو ایک جیل میں تبدیل ہو گئی۔

’کارگل اور گلگت بلتستان دو جسم ایک جان ہیں۔ ہماری ثقافت اور ہمارا رہن سہن ایک ہے۔ ہم ایسے الگ کر دیے گئے کہ سامنے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کی زمین کارگل میں ہے لیکن رہتے گلگت بلتستان میں ہیں۔‘

شیخ ناظر مہدی کہتے ہیں کہ بھارت کو اگر پاکستان سے پریشانی ہے تو اسے اس ملک کے ساتھ ملنے والے سبھی راستے بند کر دینے چاہییں یا سبھی راستوں کو کھول دینا چاہییں۔

’بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے سے جوڑنے والے کئی راستے کھلے ہیں۔ یہاں تک کہ سکھ عقیدت مندوں کے لیے کرتار پور راہداری بھی کھولی گئی۔ ہم ان سے کوئی نئی چیز مانگ نہیں رہے۔ کارگل-سکردو روڈ ہمارے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

’ہم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ کارگل اور گلگت بلتستان کی عوام بار بار سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتی ہے۔ بھارت سے جو بھی وزیر یہاں آتا ہے ہماری ان سے سب سے بڑی مانگ یہی ہوتی ہے کہ کارگل-سکردو روڈ کو کھولا جائے۔

’دنیا جانتی ہے کہ کارگل اور گلگت بلتستان بھارت اور پاکستان میں سب سے زیادہ پُرامن علاقے ہیں۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ دو پُرامن علاقوں کو جوڑنے والے راستوں کو کھولنے میں کیا قباحت ہے۔‘

ہمہ موسمی سڑک رابطے

شیخ ناظر مہدی کا کہنا ہے کہ اگر کارگل-سکردو اور ترتُک-خپلو روڈ کھولے جاتے ہیں تو لداخ کا باقی دنیا سے زمینی رابطہ سال بھر برقرار رہ سکتا ہے۔

’ابھی موسم سرما شروع ہی ہوا ہے کہ لداخ کا بیرون دنیا سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے جو اب چھ ماہ بعد ہی بحال ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اب اگر ہمیں کہیں جانا ہو تو فضائی راستے سے ہی جانا پڑے گا۔ ہمارے ہاں سرما میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو جاتی ہیں۔ جو چیز موسم گرما میں تین روپے میں مل جاتی ہے وہی چیز سرما میں نو روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔

’اگر کارگل-سکردو روڈ کھلتا ہے تو اس خطے کی اقتصادی ناکہ بندی ماضی کی بات بن جائے گی۔ ہم آرام سے اپنی زندگی گزار سکیں گے۔ سال بھر جہاں چاہیں زمینی راستے سے جا سکتے ہیں۔

’ہم اس راستے سے بہ آسانی ایران، عراق اور سعودی عرب جا سکتے ہیں۔ ہم بہت کم خرچے پر حج اور زیارت کر سکتے ہیں۔‘

یہ راستے کیوں نہیں کھولے جاتے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے کم از کم دو بھارتی دفاعی ماہرین سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ ان تاریخی راستوں کو اپنے پیاروں سے بچھڑنے والے افراد اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولنے میں کیا حرج ہے۔ تاہم دونوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

کارگل سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی کارکن اور سابق صحافی سجاد حسین عرف سجاد کارگلی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اپنے خاندانوں سے بچھڑے افراد کو ایک دوسرے سے ملے 50 تا 70 سال ہو چکے ہیں۔

’ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ حکمران طبقہ کچھ کرنا چاہتا ہے نہ دفاعی ماہرین منہ کھولنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو گلگت بلتستان پاکستان میں ایک بڑے ووٹ بینک کی حیثیت رکھتا ہے اور نہ لداخ بھارت کی سیاست میں کسی ووٹ بینک کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

’اس کے برعکس پنجاب بھارت کی ایک اہم ترین ریاست ہے اور لاہور پاکستان کا ایک اہم ترین شہر۔ دونوں طرف کی پنجابی لابی بھارت اور پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دونوں طرف کی حکومتیں ان کو خوش کرنے کے اقدامات اٹھاتی رہتی ہیں۔

’ہماری تو کسی فیصلہ ساز ادارے میں نمائندگی بھی نہیں۔ ہم ان سے بار بار کہتے ہیں کہ ہم تو ووٹ بینک نہیں ہیں لیکن آپ کم از کم انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ہمارے مطالبے کو سفارتی سطح پر اٹھا کر حل کریں۔‘

سجاد حسین کہتے ہیں: ’مہذب ممالک میں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے الگ نہیں کیا جاتا، لیکن بدقسمتی سے ہمیں بلتستان میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے الگ کیا گیا ہے۔

’1947 میں سرحد پر کھینچی گئی لکیر کے آر پار رہنے والے رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملانے کی کوششیں کبھی نہیں دیکھیں۔

’بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ جب یہاں کوئی دریا برد ہو جاتا ہے تو لاش دو کلو میٹر کے راستے کی بجائے ہزاروں کلو میٹر کے سفر کے بعد واپس بھیجی جاتی ہے۔‘

سجاد حسین نے کارگل کو گلگت بلتستان سے جوڑنے والی قدیم سڑکیں گنتے ہوئے کہا کہ یہاں پر چار ایسی سڑکیں ہیں جو کارگل کو بلتستان کے ساتھ جوڑتی تھیں۔ ایک کارگل-سکردو روڈ، دوسری استور-مشکوہ ویلی روڈ، تیسری شنعگو-گلتری روڈ اور چوتھی ترتُکأخپلو روڑ۔

’یہ ہماری قدیم اور تاریخی سڑکیں ہیں۔ جنگی ماحول کی وجہ سے ان سڑکوں پر نقل و حرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔

’جب آپ تمام نامساعد حالات کے باوجود سکھوں کے لیے کرتارپور کھول سکتے ہیں تو دو پرامن علاقوں کو آپس میں جوڑنے والے راستے کیوں نہیں کھولے جا سکتے؟

’دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں 32 دیہات ایسے ہیں جن کا ریونیو ریکارڈ ابھی بھی کارگل میں ہے۔‘

گلگت بلتستان کی عوام کا احتجاج

پانچ دسمبر کو ’عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان‘ نامی ایک تنظیم نے اتحاد چوک گلگت میں سکردو-کارگل روڈ کھلوانے سمیت کئی مطالبات منوانے کے لیے ایک روزہ دھرنا دیا۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی شیر علی انجم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکردو-کارگل اور خپلو-ترتُک راستوں کی بحالی گلگت بلتستان کی عوام کا ایک بنیادی اور دیرینہ مطالبہ ہے۔

’بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر اور ممتاز قوم پرست رہنما سید حیدر شاہ رضوی نے کئی دہائیوں قبل ان راستوں کو دوبارہ کھلوانے کی تحریک شروع کی تھی جس کے تحت نہ صرف عوام کو ان راستوں کے متعلق بیدار کیا گیا تھا بلکہ احتجاجی دھرنے بھی منعقد کیے گئے تھے۔  تب سے یہ تحریک جاری ہے۔

’آج بھی جب حکومت پاکستان کا کوئی نمائندہ گلگت بلتستان کے دورے پر آتا ہے تو اُن سے ان تاریخی راستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ان راستوں کو کھلوانے کے مطالبے کو لے کر یہاں کی مقامی اسمبلی میں اب تک کئی قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔‘

شیر علی انجم نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں تعینات ایک اعلیٰ سکیورٹی افسر نے آج سے دو سال پہلے ضلع کھرمنگ کے دورے کے دوران کہا تھا کہ بہت جلد ان راستوں کے حوالے سے ایک خوش خبری سنائی جائے گی۔

’یہاں کے لوگوں کو ابھی تک وہ خوش خبری نہیں سنائی گئی۔ گلگت بلتستان کو کارگل سے جوڑنے والے ان تاریخی راستوں کو کھولنے کی کیا کبھی سفارتی سطح پر کوششیں ہوئیں اس کے متعلق کسی کے پاس کوئی تفصیلات نہیں۔

’منقسم خاندانوں کا ہمیشہ سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے دیا جائے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آپ اگر سکھ عقیدت مندوں کے لیے کرتار پور کھول سکتے ہیں یا واہگہ سے تجارت کر سکتے ہیں تو ان تاریخی راستوں کو کھولنے میں کیا مسئلہ ہے۔‘

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 16 دسمبر کو سکردو کا دورہ کیا تو انہوں نے وہاں ایک عوامی جلسے سے 20 منٹ تک خطاب کیا، لیکن سکردو – کارگل روڈ کے متعلق کوئی بات نہیں کی جس کی وجہ سے دونوں خطوں کے لوگوں کو تھوڑی مایوسی ہوئی۔

تاہم تیاکشی کے رہائشی غلام حسین گلو کا کہنا ہے کہ عمران خان کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے جس پر لوگ خوا مخواہ جشن مناتے۔

’عمران خان ایک پریکٹیکل انسان ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم (نریندر مودی) سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جو راستے کھلے تھے ان کی جانب سے وہ بند کیے جا رہے ہیں۔ پھر خان صاحب نئے راستوں کو کھولنے کی بات کیسے کرتے؟

’عمران خان کے دورہ گلگت بلتستان کا مقصد سکردو بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کرنا تھا۔ کارگل میں ابھی تک جہاز نہیں اترتا لیکن سکردو میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بن گیا ہے۔

’سچ مانیں تو پاکستانی حکومت گلگت بلتستان کے لوگوں کو جتنی سہولیات فراہم کر رہی ہیں اُتنی ہمیں نہیں مل رہی ہیں۔‘

’وہ ظلم کی انتہا تھی‘

غلام حسین گلو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ دسمبر 1971 میں بھارت کا گلگت بلتستان کے چار دیہات پر قبضہ کرنا ظلم کی انتہا تھی۔

’ہمارے وہ لوگ جو سکردو یا پاکستان کے مختلف علاقوں میں ملازمت یا پڑھائی کرتے تھے وہ ہمیشہ کے لیے وہیں پھنس کر رہ گئے۔ میرے اور دیگر تین دیہات میں صرف بوڑھے ماں باپ اور بچے رہ گئے تھے۔

’میرے سگے چچا غلام قادر اُس وقت ملازمت کے سلسلے میں سکردو میں مقیم تھے۔ جنگ شروع ہوئی تو میرے چچا وہیں پھنس کر رہ گئے اور اُن کی بیوی بانو بیگم ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں۔

’بعد ازاں غلام قادر نے ویزے پر یہاں آنے کی کافی کوششیں کیں لیکن ان کی وہ سبھی کوششیں رائیگاں گئیں۔ ہم نے ان کی بیوی کو گلگت بلتستان بھیجنا چاہا، پاسپورٹ بنایا لیکن ویزا نہیں دیا گیا۔

’پھر 1985 میں میری چاچی ایک دن دریائے شیوک کے راستے کہیں جا رہی تھیں کہ اس کا پانی انہیں بہا کر گلگت بلتستان لے گیا۔ ہم نے دریائے شیوک کے کنارے پر اپنے بلتی بھائیوں کو چلا چلا کر آگاہ کیا کہ یہاں اس طرف ایک سانحہ پیش آیا ہے۔

’وہاں کے لوگ ڈھونڈنے نکلے لیکن لاش ان کے ہاتھ نہیں آئی۔ چچا کو خبر ملی تو وہ بھی ڈھونڈنے نکلے۔ معجزہ دیکھیں کہ لاش ان کے ہاتھ آ گئی اور انہیں اپنی اہیلہ کا آخری دیدار نصیب ہوا۔ میرے چچا نے تب تک دوسری شادی بھی نہیں کی تھی۔‘

غلام حسین گلو کا کہنا ہے کہ 1971 کی جنگ کے بعد ان کے دیہات میں انہیں کوئی سننے کے لیے بھی نہیں آیا۔

’ہم پاکستان نہ بھارت کے نجی معاملوں میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں ہمارے بچھڑے افراد خانہ سے ملنے دو۔

’ان لوگوں نے جب پونچھ – راولاکوٹ اور سری نگر – مظفر آباد کے راستے کھولے تو ان پر سفر کرنے کے لیے کشمیری ہونا لازمی قرار دیا۔ ہم ان راستوں سے بھی نہیں جا پائے۔‘

1971 کی جنگ میں کیا ہوا تھا؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 میں ہونے والی مختصر جنگ کے دوران جہاں بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہو کر ایک علیحدہ ملک بنا، وہیں بھارتی فوج نے گلگت بلتستان کے چار دیہات پر قبضہ کر کے اپنی حدود میں شامل کر لیا۔

لداخ سے تعلق رکھنے والے مورخ عبدالغنی شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا سرحد کے اس حصے میں دفاعی نظام مستحکم نہیں تھا اور اسی وجہ سے بھارت چار دیہات پر قبضہ کرنے میں بہ آسانی کامیاب ہوا۔

’سننے میں آیا کہ وہاں پاکستان نے صرف 30، 40 فوجی جوان تعینات کر رکھے تھے جن کے پاس اسلحہ و گولہ بارود بھی کم تھا۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ ان فوجیوں کی کمان ایک بنگلہ دیشی افسر کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے مزاحمت دکھانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔‘

غلام حسین گلو کہتے ہیں کہ بھارتی فوج مزید آگے بڑھ سکتی تھی اور کئی دوسرے دیہات کو بھی اپنے قبضے میں لے سکتی تھی لیکن بظاہر کسی حکمت عملی کے تحت وہ مزید آگے نہیں آئی۔

عبدالغنی شیخ کے مطابق جب بھارت نے ان دیہات پر قبضہ کیا تو کئی افراد پاکستان کے مختلف علاقوں میں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ وہ پھر ان دیہات میں قدم نہیں رکھ سکے۔ کسی کے والد یہاں ہیں تو بیٹا وہاں بلتستان یا پاکستان کے کسی شہر میں رہتا ہے۔

’گذشتہ 50 برسوں کے دوران ان دیہات نے کافی ترقی کی ہے۔ ان دیہات میں سینکڑوں افراد سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔

’چوں کہ ان دیہات میں سیاح آتے ہیں اس لیے وہاں گیسٹ ہاؤسز بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ وہاں تقریباً سبھی لوگوں کی اقتصادی حالت کافی بہتر ہے لیکن خاندان بٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ کافی پریشان رہتے ہیں۔‘

عبدالغنی شیخ کہتے ہیں: ’یہ ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے۔ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے جو سفر چند منٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے اس کے لیے یہاں کے لوگوں کو ہزاروں کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو ویزا بمشکل ہی ملتا ہے اور جب ملتا ہے تو واہگہ بارڈر کے راستے سے جانا پڑتا ہے۔

’میں نے ان دیہات کا دورہ بھی کیا ہے۔ آخری گاؤں تھنگ ہے۔ وہاں سے بلتستان کے دیہات نظر آتے ہیں۔ مسجدیں نظر آتی ہیں۔ اکا دکا آدمی بھی نظر آتے ہیں۔

’وہ دیہات کافی سرسبز و شاداب ہیں۔ تاہم آپس میں بات نہیں ہوتی ہے کیوں کہ وہاں چپے چپے پر فوج تعینات ہے۔ یہ دیہات 2010 میں سیاحوں کے لیے بھی کھول دیے گئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا