’گلگت بلتستان آنے کے بعد لاہور یاد نہیں آیا‘

گذشتہ سال سیاحوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سیاحتی شعبے کو نقصان ضرور پہنچا لیکن رواں سال سیاحوں کی مسلسل آمد نے اس خطے کی رونقیں بحال کر دیں۔

میجر (ر) رضوان اور ان کی اہلیہ (تصویر: علینہ شگری)

پاکستان کا شمالی علاقہ گلگت بلتستان اپنی حسین و دلکش وادیوں، دلفریب نظاروں، بلند و بالا برف پوش پہاڑوں، شور کرتے دریاؤں اور خوشگوار موسموں کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ کہانی ہے اس دلکشی کے شکار ایک جوڑے کی۔

پوری دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ گلگت بلتستان میں واقع ہیں، نہ صرف یہ بلکہ دنیا کے تین بڑے گلیشیئرز بھی یہیں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ 23 تاریخی قلعے، 75پولو گراؤنڈ، چار نیشنل پارکس، 65 تاریخی مقامات، چٹانوں پہ بنے سینکڑوں اور ہزاروں برس قدیم نقوش و نگار اور فن پارے بھی دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔

میں یہ کہنے میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ میرا تعلق اس خطے سے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کی من مونی زمین مجھے پکارتی رہتی ہے اور میں ہر کچھ عرصے بعد دل کی اس پکار کو سنتے ہوئے یہاں پہنچ جاتی ہوں۔ خود کو اپنے اجداد کی سرزمین پر پاکر مجھے جو خوشی ہوتی ہے وہ یہاں آنے والے سیاحوں کی خوشی سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اور بات کہ یہاں آنے والے سیاح بھی کچھ کم خوش نہیں ہوتے۔

شاید اقبال کی نظم ایک آرزو یہاں آنے والوں کے دلوں میں ضرور مچلتی ہے اور کنکریٹ کے جنگل بنے شہروں سے اکتا کر فطرت کی آغوش میں خوش وقتی کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں، ہاتھ کا سرہانا اور سبزے کا بچھونا میسر ہو تو تفکرات ویسے ہی ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ لاہور کے ایک جوڑے کو یہاں کا حُسن ایسا بھایا کہ سب کچھ چھوڑ کر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔

آپ نے گلگت بلتستان سے لاہور، کراچی، اسلام آباد آنے والوں سے متعلق تو سنا ہوگا لیکن یہ نہیں سنا ہوگا کہ کوئی لاہور چھوڑ کر گلگت بلتستان آن بسا۔ جی ہاں! ایسا ہی ہوا لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کے ساتھ ہوا، جو گذشتہ سال گلگت بلتستان گھومنے کی غرض سے آیا لیکن اب یہ جوڑا گلگت شہر میں ایک ہوٹل اور ایک بہترین کیفے چلاتا ہے۔

گلگت کے حالیہ دورے پر میرا ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے خود یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ یہ دونوں میاں بیوی لاہور میں اپنا گھر چھوڑ کر مکمل طور پر گلگت بلتستان منتقل ہوچکے ہیں۔

میجر ریٹائرڈ رضوان نے فوج کے بعد اپنا ٹھکانہ اپنے آبائی شہر لاہور کو بنایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دورانِ سروس جب وہ گلگت بلتستان آیا کرتے تھے تو انہیں اس علاقے سے پیار ہوگیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں مستقل طور پر منتقل ہونے کا فیصلہ وہ 90 کی دہائی میں ہی کر بیٹھے۔ ان کی اہلیہ رابعہ رضوان کا کہنا تھا کہ یہاں کے نظارے کسی بھی طور پر سوئٹزرلینڈ سے کم نہیں، لیکن یہاں پر لوگ سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے ہیں۔

’ہمارا خیال تھا کہ گلگت شہر میں کھانے پینے کے لحاظ سے ماڈرن طرز پر کیفے ضرور بننا چاہیے تاکہ یہاں آنے والے غیر ملکی سیاح علاقے کے حوالے سے ایک اچھا تاثر لے کر واپس جائیں اور نہ صرف علاقے کی خوبصورتی بلکہ یہاں کے کھانے بھی انھیں واپس آنے پر مجبور کرسکیں۔‘

گذشتہ سال جب یہ جوڑا گلگت بلتستان سیر کرنے آیا تو یہاں کے مقامی افراد نے انہیں کیک اینڈ بیک شاپ کھولنے کا مشورہ دیا۔ رابعہ کا کہنا تھا کہ انہیں لوگوں کی خدمت کرنا پسند ہے اور ان کی اولین ترجیح مقامی افراد کو اس کاروبار میں تربیت دینا ہے۔

میجر رضوان اور ان کی اہلیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شروع میں اس کیفے میں کھانا بھی ہم خود پیش کرتے تھے، میری اہلیہ کھانا پکاتی تھیں اور وہ کِھلاتے تھے۔ اب ان کے پاس چار شیف اور ویٹرز کی ٹیم موجود ہے۔ رابعہ نے بتایا کہ ان کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون یہاں کے مقامی ہوٹل مالکان نے کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہاں کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم پنجاب سے آ کر یہاں کاروبار شروع کر رہے ہیں بلکہ ہمیں کھلے دل کے ساتھ اس کمیونٹی میں شامل کیا گیا۔ یہاں تک کہ سپلائی چین بنانے میں بھی مقامی افراد نے اہم کردار ادا کیا۔‘

جہاں میجر رضوان کیفے کے حوالے سے لیبر اور سپلائی چین دیکھتے ہیں، وہاں مسز رضوان نے کیفے کا کچن خود سنبھال رکھا ہے اور تیار کیے جانے والے تمام لوازمات میں ان کی خصوصی توجہ شامل ہوتی ہے۔

 میرے اس سوال پر کہ ریگولر کسٹمر کون سے ہیں؟ رابعہ نے بتایا کہ ’آپ حیران رہ جائیں گی یہ جان کر کہ ہمارے کسٹمرز میں نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے جنہیں ان کے بھائی یا والد یہاں خود چھوڑنے آتے ہیں۔‘

موسم کے حوالے سے سوال پر میجر رضوان کا کہنا تھا کہ ہر موسم چیلنجنگ رہا۔ ’گرمی کے موسم میں درجہ حرارت میں اضافہ مشکلات بڑھانے کے مترادف ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور وولٹیج کے مسائل کیفے کا ہال ٹھنڈا رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جبکہ خزاں میں خشکی کے باعث کھانے کے نسخوں کو مسلسل تبدیل کرنا پڑتا ہے۔‘

میجر رضوان اور ان کی اہلیہ کے مطابق سردی کا موسم مشکل ترین تھا، لیکن سرد موسم میں طویل لوڈشیڈنگ اور رات دن جنریٹر پر انحصار کے باوجود وہ حوصلہ نہیں ہارے اور انہوں نے یہ چیلنجز تسلیم کیے تاہم وزیراعظم عمران خان سے گزارش کی کہ وہ گلگت بلتستان میں سیاحت کو بہتر بنانے کے لیے بجلی جیسی بنیادی ضرورت اور پائیدار انفراسٹرکچر کو یقینی بنائیں۔

گلگت بلتستان کا سحر جس پر طاری ہوجائے پھر اس کے لیے یہاں سے دور رہنا ممکن نہیں۔ بس تھوڑی سی کوشش اور بروقت اقدامات سے سیاحت کے اس کوہ نور تک ساری دنیا کی رسائی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ