’کیا کھویا، کیا پایا‘

اس سوچ کا کیا کیجیے کہ ہمارا دماغ کا آئینہ کبھی کبھی ہمیں دوسرا رخ بھی دکھانے لگتا ہے کہ اگر انگریز برصغیر میں نہ آئے ہوتے تو کیا کچھ نہ ہوا ہوتا۔

ملکہ الزبتھ دوم اور ڈیوک آف ایڈنبرا برطانوی فوجیوں کے قتل عام کے 78 سال بعد 14 اکتوبر، 1997 کو سکھوں کے مقدس شہر امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے میدان میں بغیر جوتے کے چلے اور انگریز کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی (اے ایف پی فائل فوٹو)

تقریباً دو سو سال تک برصغیر  پر راج کرنے والے انگریزوں کے بارے میں ہمارا نظریہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جسے گوروں کی زبان میں love-hate relationship اور مقامی بھاشا میں ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ جیسی کیفیت کہہ سکتے ہیں۔

اب کوئی پوچھے کہ اس وقت انگریز کیسے یاد آ گئے؟ ہوا یوں کہ 16 دسمبر کی یاد کے ساتھ جہاں اور تلخیاں وابستہ ہیں وہاں یہ بھی یاد آ گیا کہ قیامِ پاکستان کے وقت ہی مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کی پیش گوئی کر دی گئی تھی۔

یہ پیش گوئی کسی اور نے نہیں، متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ دونوں حصے چوبیس، پچیس سال بعد الگ ہو جائیں گے۔

دیکھا آتے ہیں نا قدم قدم پہ انگریز یاد۔ اب شروع کرتے ہیں کبھی ہاں، کبھی ناں والی قسط!

چلیے پہلے ناں والی کڑواہٹ چکھتے ہیں تاکہ بعد میں ہاں کا میٹھا ذائقہ برقرار رہے۔

آج کی دنیا کی سرحدی لکیریں پکی ہونے سے پہلے اور سکندر یونانی کے جنگی جنون کے بعد کی بات ہے کہ باہر کی دنیا کے طاقتور جتھے کبھی مشرقی ایشیا تو کبھی اور علاقوں سے ہندوستان کا رخ کرتے رہتے تھے۔

کابل، پشاور، جہلم، لاہور سے ہوتے ہوئے اور پانی پت فتح کرتے ہوئے آگرہ کو بھی لپیٹتے ہوئے سیدھے اس دلی پہنچ کر دم لیتے تھے جس راجدھانی نے اپنی کئی بار اجڑی مانگ ’مساں مساں‘ یعنی مشکل سے سنواری ہوتی تھی اور اب ’عالم میں انتخاب‘ یہ شہر ایک بار پھر ناک بند کر کے سوگ کے اندھے کنویں میں ڈبکی لگانے کو تیار ہو جا تا تھا۔

بیرونی حملہ آوروں کی اس لمبی سیریز کے  دوران مقامی راجپوت سردار، مراٹھی سمراٹ اور پنجابی مہاراجہ اپنے مکان اور مٹی بچانے کے لیے اپنا اپنا زور لگاتے رہے اور ساتھ ساتھ دکن کی جانب سے بھی مزاحمت جاری رہی لیکن جنگ کے میدانوں میں مجموعی طور پر سینٹرل ایشیا کا پلہ جنوبی ایشیا پر بھاری رہا۔

یہاں ان غریب عوام کا نہ پوچھیں جو لینے میں نہ دینے میں کہ ان کا رویہ کمہار کے ان گدھوں جیسا تھا جنہوں نے ڈاکوؤں کے حملے کے ڈر سے مالکوں کے ساتھ یہ کہہ کر بھاگنے سے انکار کر دیا تھا کہ ہم نے تو بوجھ ڈھونا ہے کسی کا سہی۔۔

 اور پھر یوں ہوا کہ سات سمندر پار سے دس ہزار ناٹیکل میل کا سفر طے کرتے ہوئے انگریز ملاح سمندر پہ بڑے بڑے بحری جہازوں پر تیرتے ہوئے آئے اور پہلے تجارت کے نام پہ سورت، گجرات کی جانب سے اور پھر بحری طاقت کے بل پر برما پہ قبضے کے بعد رنگون سے ہوتے ہوئے بنگال میں داخل ہو گئے اور یہاں پہلے سے قابض، معاف کیجیے گا قائم حکمرانوں کے درباروں تک پہلے رسائی حاصل کی اور  بعد میں انہیں سے جنگ چھیڑ دی۔

سچ کہیں تو ہمارا غصہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔

ان ہوشیار گوروں نے کبھی دماغی سازشوں،کبھی عقلی حکمت عملی تو کبھی سخت جانی کے امتحانوں کو ایک ایک کر کے پاس کرنا شروع کیا یہاں تک کہ حملہ آوری کی تمام ڈگریاں اپنے نام کر لیں۔ پھر یوں ہوا کہ مغل شہزادوں، منگل پانڈے اور بھگت سنگھ کو پھانسیاں، میرٹھ چھاؤنی  کے باغی فوجیوں کو سزائیں اور جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد جارحیت میں پی ایچ ڈی بھی کر لی۔

ہم پاکستانیوں کے غصے کی اصل وجہ یہی ہے کہ انگریزوں نے حکومت کا تر نوالہ مسلمان مغلوں سے چھینا تھا۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ مغلوں نے یہ راجدھانی لودھیوں سے چھینی تھی جو مسلمان ہی تھے۔ اس سے پہلے لودھیوں نے سیّدوں سے، سیّدوں نے تغلقوں سے، تغلقوں نے خلجیوں سے، خلجیوں نے مملوکوں سے اور مملوکوں نے بھی کسی باہر سے آئے ہوئے قابض سے ہی یہ مملکت چھینی تھی۔

یہ سب کے سب بھی مسلمان ہی تھے لیکن خیر اپنا مارے تو چھاؤں میں تو ڈالے گا والی مثال سے بہل کر ہم ان تخت تخت کھیلنے والوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

اب اس میں ’اپنے‘ کتنے اپنے ہیں یہ کہانی پھر سہی۔ ابھی ہم واپس چلتے ہیں ہارا ہوا غصہ نکالنے۔

آج دنیا بھر میں شیروں خاص طور پہ بنگال ٹائیگر کی معدوم ہوتی ہوئی نسل پر سب سے زیادہ واویلا مغرب نے ہی مچایا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کے جنوبی ہندوستان میں لینتھ اینڈرسن اور ان کے بیٹے ڈونلڈ اینڈرسن جبکہ شمالی ہندوستان میں کرنل جم کوربٹ نے بندوق بھر بھر کے شکار کھیلا اور لاتعداد شیر چیتے مارے۔

ان کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کی کہانیوں کے مطابق وہ صرف آدم خور شیروں کا شکار کرتے تھے۔ وللہ اعلم بالصواب!

لیکن صاحب اس سوچ کا کیا کیجئے کہ ہمارا دماغ کا آئینہ کبھی کبھی ہمیں دوسرا رخ بھی دکھانے لگتا ہے کہ اگر انگریز برصغیر میں نہ آئے ہوتے تو کیا کچھ نہ ہوا ہوتا۔

حوالوں کے طور پہ ریلوے لائن جانے کب بچھتی، ہڑپّہ اور موئن جودرو کے کھنڈرات جانے کب دریافت ہوتے، یا ہوتے بھی کہ نہیں۔

زرخیز پنجاب کا وہ نہری نظام وجود میں نہ آیا ہوتا جو دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام کہلاتا ہے۔ ہم سب کا جنون کی حد تک پسندیدہ کھیل کرکٹ کا تحفہ نہ ملتا یا پھر جانے کتنی دیر سے ملتا۔

ہمیں فوجی، انتخابی اور پارلیمانی نظام، عدالتی اور پولیس کا محکمہ، تعلیم، بیوروکریسی اور معاشی سسٹم سب بنے بنائے نہ ملے ہوتے۔

(اب اگر ان نظاموں کو اپنی روایات اور ضروریات کے حساب سے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں کیا جاتا رہا تو قصور انگریزوں کا تو نہیں)

ہمارے بہت سے نامور لوگ آسانی سے انگلینڈ پڑھنے نہ جا رہے ہوتے۔ زیادہ دور کیوں جائیں ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح انتہائی معتبر یونیورسٹی لنکنز ان ( Lincoln’s Inn) سے بیرسٹری کی اعلی ڈگری لے کر آئے۔

ہمارے قومی شاعر علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال نے سر کا خطاب ملکہ برطانیہ سے حاصل کیا۔

تقسیمِ ہند کے وقت بڑے بڑے زمیندار وسیع و عریض زرعی خطے اپنے نام لکھوا کر دھرتی کی زرخیزی میں اضافے کا سبب بنے تو انہی انگریز حاکموں کے حکم سے۔

سچ کہیں تو ہم نے انگریزوں کے ہندوستان میں قیام کے بارے میں جتنی چھان پھٹک کی اتنا ہی ان کے نظم و ضبط، پابندی وقت، دماغی چستی اور جسمانی محنت کے قائل ہوئے۔

انگلینڈ میں رہنے والے سرد موسم کے عادی ہوتے ہیں اور انتہائی گرم موسم اور اس کی  پیداوار مثلاً مکھی، مچھر وغیرہ سے کم واقفیت رکھتے ہیں لیکن لاکھوں انگریزوں نے 45 ڈگری تک گرمی میں ملیریا اور ڈائریا کی وباؤں کے باوجود پوری وردی یا مکمل سوٹ ٹائی کے ساتھ بھی اپنے فرائض تن دہی سے انجام دیے۔ ہزاروں ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔

غور کریں تو پاک و ہند کے بڑے شہروں میں ایک ایک گورا قبرستان موجود ہے جس میں چند دن کے بچے سے لے کر نوے سال تک کے بزرگ کی قبریں بتاتی ہیں کہ لوگ دھن کے پکے تھے۔ کہتے ہیں کہ وفاداری کی تعریف تو دشمن کی بھی بنتی ہے سو کر رہے ہیں۔

لیکن دماغ پھر قلابازی کھا کر کہتا ہے کہ یہاں کی نایاب چیزیں کوہ نور سمیت لندن والے اڑا لے گئے اور رسید بھی نہ دی۔ باوجود درجنوں یاد دہانیوں کے پلہ نہیں پکڑاتے۔

پھر یہ بھی کہ مہربان نہ آتے  تو پنجاب اور بنگال کی تقسیم بھی نہ ہوتی۔ پنجاب سے لاکھوں لوگ بے گھر نہ ہوتے اور لاکھوں قتل نہ ہوتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت مضبوط مزاحمتی مراکز کی توڑ پھوڑ اور متنازعہ سرحدی کاٹ چھانٹ کے نتیجے میں

 پنجابی دو علاقوں میں، پختون تین جگہوں پہ اور بنگالی دو حصوں میں نہ بٹ گئے ہوتے!

لیکن پھر کبھی کبھی کچھ اور خیال آنے لگتا ہے کہ انگریز یہاں آنے کے بعد حکومت چھوڑ کر جاتے ہوئے ہندوستان تقسیم کر کے پاکستان کا تحفہ بھی تو دے گئے۔

لیکن یہ سوچ بھی کہیں سے آ دھمکتی ہے کہ انگریزوں کا کیا کمال، اسلام کا قلعہ تو بہرصورت وجود میں آنا ہی تھا۔

لیکن پھر کچھ اور خیال اور پھر کچھ اور۔

سو محبت اور نفرت کی یہ رسہ کشی جاری ہے۔ سوچ کر بتایئے کہ آپ کا دماغ کیا کہتا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ