گپکار ڈراما، ایکٹ 2

گپکار اتحاد میں شامل جماعتوں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں اگر ذرا بھی غیرت باقی ہے تو عوام کے ساتھ مل کر نئی حلقہ بندی اور انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرکے کچھ تو اپنا کردار ادا کریں ورنہ شیخ اور بخشی کا یہ سلسلہ کبھی تھمنے کا نام ہی نہیں لے گا۔

بھارت کے زیرانتظام جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپل ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی پارٹی رہنماؤں کے ساتھ چھ دسمبر، 2021 کو دہلی میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور شہریوں کے قتل کے خلاف احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں  (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


آپ کو معلوم ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کے لیے سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟

اکثریت سمجھتی ہے کہ ان کو ہر چھوٹے بڑے رہنما نے ازل سے دھوکہ دیا، لوٹا اور ان سے جھوٹ بولا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر کسی پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں۔

چند روز پہلے جب بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے قائم انتخابی حد بندی کمیشن نے نئی حلقوں سے متعلق مسودہ جاری کیا جس میں بغیر کسی ٹھوس جواز کے جموں کو مزید چھ نشستیں عنایت کی گئی ہیں۔

قومی دھارے سے منسلک جماعتوں نے فورا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کے خلاف یکم جنوری کو احتجاج کا اعلان کیا لیکن یقین مانیئے بیشتر لوگوں نے اس پر نہ صرف قہقہہ لگایا بلکہ غیر شائستہ جملے کہہ کر دل کی بھڑاس بھی نکالی۔

پانچ اگست، 2019 کو جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے سے پہلے مرکزی دھارے کے رہنماؤں کو رات کے اندھیرے میں گرفتار اور نظربند کر دیا گیا۔

خبروں کے مطابق ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا حتی کہ ملک کے سابق مرکزی وزیر اور وزیراعلی عمر عبداللہ کی لمبی داڑھی والی تصویر اتنی وائرل کر دی گئی کہ ان کے کٹر حریفوں کو بھی اسے دیکھنے پر سخت تکلیف پہنچی تھی۔

خود ان رہنماؤں نے رہائی کے بعد اپنی گرفتاری کو ذلت سے تعبیر کیا بلکہ دو پارٹی سربراہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران سیاست چھوڑنے کا اشارہ بھی دیا۔ بیشتر کشمیریوں نے محسوس کیا کہ اس خطے میں اب شاید ہی کوئی بھارت نواز سیاست کرے گا۔

جموں کے سماجی کارکن حفیظ احمد نے اس وقت کہا تھا کہ ’بی جے پی کی سرکار نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار کر مینسٹریم سیاست کا دور کشمیر میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا اور تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔‘

ایک وزیر اعلی کے بارے میں یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی کہ دوران حراست ایک سپاہی نے انہیں تیز کلامی پر تھپڑ مارا تھا۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر اس بات کو ہر کسی نے شدت سے محسوس کیا۔

جو لوگ کشمیر کی سیاست سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ مینسٹریم لیڈرشپ کو بھارت نواز ہونے کے باوجود اتنی ہزیمت سے گزرنا پڑا ہے۔

جس شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے سن سنتالیس میں عوام کی خواہشات کے برعکس جموں و کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈالا انہیں نو اگست، 1953 کو رات کے اندھیرے میں گلمرگ سے گرفتار کرکے 11 سال تک جیل میں بند رکھا گیا اور پھر اس وقت رہا کر دیا جب وہ شیر کی دھاڑ سے محروم ہوگئے تھے۔

جس بخشی غلام محمد نے نہرو کے ساتھ ساز باز کرکے وزیراعظم کی کرسی حاصل کی اور حکومت کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے منہ بند کر دیئے تھے اسی بخشی کے خلاف اسی مرکز نے کیس بنا کر اسی جیل میں بند رکھا جو انہوں نے شیخ عبداللہ کے لیے نہرو کو تجویز کیا تھا۔

کشمیر کہانی کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور شاید یہ کہانی ہی ایسی ہے کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا نیا روپ پانچ اگست 2019 کو پھر وجود میں آیا ہے۔

شیخ عبداللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک جب ان سیاست دانوں کو رہا کیا جاتا رہا ہے تو عوام ہر بار امید کرتے رہے ہیں کہ یہ اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر عوامی خواہشات کی ترجمانی کریں گے یا کم از کم بھارت کی سخت گیر کشمیر پالیسیوں کا ساتھ دینے سے گریز کریں گے۔

مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔

نہ پہلے کسی رہنما نے عوام کے بنیادی حقوق کا لحاظ رکھا نہ آج کوئی عوام کا مان رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے حتی کہ گرفتاری کے فورا بعد یہ جماعتیں پنچایتی انتخابات میں پرایکسی امیدواروں کے ذریعے شامل ہوگئے۔

نئی حلقہ بندی کے بعد عین ممکن ہے کہ اسمبلی کے لیے انتخابات ہوں جو بی جے پی کے منصوبے کے تحت اس بل کی تائید کروانے کے لیے لازمی ہیں جس کی رو سے ریاست کو دو حصوں میں توڑ کر اندرونی خودمختاری سے محروم کردیا گیا تھا تاکہ سپریم کورٹ بھی اندرونی خودمختاری سے متعلق پٹیشن سننے کے اہل نہ رہے تو بیشتر جماعتوں نے حلقہ بندی سے پہلے ہی اپنی انتخابی ریلیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ان ریلیوں میں اگرچہ ان کے چند ووٹر ہی ہوتے ہیں لیکن ان جماعتوں نے پھر اندرونی خودمختاری کی واپسی کا نعرہ دے کر عوام کو بےوقوف بنانے کا روایتی عمل شروع کر دیا ہے۔

ایک طرف گپکار اتحاد میں شامل جماعتیں حلقہ بندی کمیشن کی سفارشات پر احتجاج کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکیں ہیں دوسری طرف حلقہ بندی کے اس عمل میں نیشنل کانفرنس کے تین رکن پارلیمان شامل بھی رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوام کے ایک بڑے طبقے نے گذشتہ دو برسوں سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ اندرونی خودمختاری کو منسوخ کرنے کے خلاف بطور احتجاج وہ پارلیمان سے مستعفی ہو جائیں تاکہ تمام مرکزی دھارے کی جماعتیں متحد ہو کر مرکزی سرکار سے پانچ اگست 2019 کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکیں۔

بقول ایک ایڈیٹر ’جو بلدیاتی انتخابات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے کیا وہ پارلیمان سے استعفے دیں گے؟ یہ جماعتیں کشمیر کو میونسپلٹی میں تبدیل کرنے کے بعد جمعدار بننے کے لیے بھی تیار ہیں۔

’ہندوستان کی سرکار کو بھی اس بات کا علم ہے کہ یہ اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتیں، اسی لیے وہ کشمیر میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔‘

عوام کو بھی بخوبی علم ہے کہ انہیں اپنے حصول حقوق کی جنگ بغیر کسی قیادت کے ہی لڑنی ہے لیکن گپکار اتحاد میں شامل جماعتوں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں اگر ذرا بھی غیرت باقی ہے تو عوام کے ساتھ مل کر نئی حلقہ بندی اور انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرکے کچھ تو اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ شیخ اور بخشی کا یہ سلسلہ کبھی تھمنے کا نام ہی نہیں لے گا۔


نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے اس اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ