کشمیر، حلقہ بندی اور انتخابات

کشمیری عوام کی سوچ کا مطالعہ کرنا بھی انتہائی مشکل ہے، بیشتر تشدد، سختیاں اور مصیبتیں جھیل رہے ہیں، ہزاروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، کوئی گھر بچا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو۔ ان حالات کے پیش نظر بعض لوگ پھر ووٹ کیوں ڈالتے ہیں؟ اس کا بھی جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

یکم دسمبر 2020 کو  جموں و کشمیر کے  ضلع بانڈی پورہ کے علاقے ناجن سنبل میں ضلع ترقیاتی کونسل  اور پنچایت  کےضمنی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران خواتین ووٹرز    پولنگ سٹیشن میں داخل ہو رہی ہیں جبکہ بھارت کے نیم فوجی  اہلکار الرٹ کھڑے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:


آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ جموں و کشمیر میں قومی دھارے سے منسلک سیاسی جماعتوں نے چند ہفتوں سے اپنے ووٹروں سے میل ملاپ اور جلسے جلوس کرنے کی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔

ویسے بھی دو ماہ پر محیط شدید سردی میں دفتری کام سُست ہوجاتا ہے، سکول دو سال سے تقریباً بند پڑے ہیں، تعلیمی اداروں کا نظام سرما میں ٹھپ پڑا رہتا ہے، سیاسی سرگرمیاں کیا، تحریک آزادی کی سرگرمیاں بھی اس موسم میں یخ بستہ ہوجاتی ہیں۔

ان حالات میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ریلیاں نکالنا محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ان جماعتوں کو شاید مرکز کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے کہ موسم سرما ختم ہوتے ہی اگلے سال انتخابات کروائے جارہے ہیں۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مرکزی حکومت خطے کی نئی حلقہ بندی تقریباً مکمل کرچکی ہے جس میں جموں میں نئے حلقے شامل کرکے اسے کشمیر کے برابر کرنے کا منصوبہ شامل ہے، تاکہ کشمیری مسلمان کا سربراہ ہونے کا جواز ختم کیا جاسکے اور جموں کو کشمیر پر برتری واپس حاصل ہو جو جموں والوں کا سن 47 کے بعد  سے بڑا مطالبہ رہا ہے۔

1947 تک جموں والے پورے خطے بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پر مہاراجوں کی شکل میں تخت نشین رہے تھے۔ مسلمانوں کو اداروں یا انتظامیہ میں کوئی خاص نمائندگی نہیں تھی، جس کے خلاف شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں عوامی تحریک شروع ہوئی تھی، جسے انڈین نیشنل کانگریس نے چالاکی سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا حصہ بنا کر تحلیل کردیا۔

مسلم خطہ جمہوری ہندوستان میں شامل تو ہوگیا مگر جبری استبداد کا وہ دور ختم نہیں ہوا جو مہاراجہ کے زمانے میں ان کی قسمت کا حصہ بن گیا تھا۔

مورخ سومنترا بوس لکھتے ہیں کہ ’مہاراجہ کی انتظامیہ میں کشمیری پنڈت خاصا اثر رسوخ رکھتے تھے اور ان کی پالیسیاں بھی اکثر پنڈت ترتیب دیا کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال 1925 کا وہ فرمان بھی ہے جس کے تحت کسی غیر ریاستی باشندے کو یہاں زمین یا جائیداد خریدنے کا حق نہیں تھا۔‘

یہی فرمان پھر ہندوستانی آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل اختیار کر چکا تھا جسے اب بعض ان کشمیری پنڈتوں کے کہنے پر منسوخ کردیا گیا۔ جو وادی سے سن 90 میں مسلح تحریک کے پیش نظر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے، جب بعض بندوق برداروں نے چند پنڈتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

خیال ہے کہ مارچ کے مہینے تک حکومت کی نئی حلقہ بندی کا اطلاق ہوگا، جموں کو مہاراجہ دور کی سبقت واپس حاصل ہوگی، کشمیر مزید غلامی کے شکنجے میں پھنس جائے گا، پھر مقامی سیاسی جماعتیں اندرونی خودمختاری کا لولی پوپ دے کر اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کی تگ و دو کریں گی، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کا واحد مقصد تھا کہ شیخ عبداللہ سے لے کر کشمیری عوام تک، سب سے اس دور کا بدلہ لیا جائے جو ہندو مہا سبھا کے لیڈر شیام پرساد مکھرجی کی حراست، ہلاکت اور آئین میں آرٹیکل 370 کی شمولیت وغیرہ کی صورت میں اس پارٹی کے منشور میں سات دہائی پہلے لکھا جاچکا تھا۔

بھارت کو جموں و کشمیر میں انتخابات کروانے کی جلدی نہ ہوتی، اگر اسے بعض مغربی جمہوریتوں اور قومی اداروں کے سامنے جواب دہ نہ ہونا پڑتا جو بار بار کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے بارے میں سوال اٹھا کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر کشمیر میں جمہوری حکومت ہوتی، بھلے ہی وہ دہلی سے ہی مسلط کیوں نہ کی گئی ہو یا انتخابی دھاندلی سے وجود میں کیوں نہ لائی گئی ہو، تو دنیا کی بڑی جمہوریتیں اپنے اداروں اور ارکان کو سمجھانے میں دقّت محسوس نہ کرتیں۔ بائیڈن یا بورس جانسن بے دھڑک کر کہہ سکتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں انتخابی عمل کے ذریعے حکومت قائم ہوئی ہے جیسا کہ بھارت نے سات دہائیوں تک عالمی برادری کے سامنے اپنا یہ موقف رکھا ہے۔

اس بات کے پیش نظر مرکزی حکومت انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہوگئی ہے اور کشمیری مین سٹریم پارٹیاں پھر ریلیوں میں عوام کو بھارتی جمہوریت کا درس دے کر پھسلانے لگی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی عوام ووٹ دینے کے لیے نکلیں گے۔ اگر ایک طرف مین سٹریم اس خوف میں مبتلا ہے کہ بی جے پی کے لیے میدان چھوڑنے سے ان کا پورا صفایا ہوجائے گا تو عوام بھی پریشانی میں گھرے ہیں کہ غیر مانوس نمائندوں کے سامنے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا مزید خفت کا باعث ہوگا۔

قومی دھارے والی جماعتوں کے وجود اس لیے بھی خطرے میں ہیں کہ عوام کا بڑا طبقہ انہیں تحریک کا دشمن سمجھتا ہے۔ وہ خود بھی آزادی پسندوں سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتیں۔

بی جے پی کی حکومت نے ان کی تذلیل کے باوجود انہیں ہی دہلی بلاکر یہ اقرار تو کرلیا کہ یہی چند بچے کھچے سیاست دان ہندوستانی پرچم اٹھانے کی جرات کرسکتے ہیں اور ان پر ہی تکیہ کرنا لازمی ہوگا۔

یعنی کانگریس کی دیرینہ کشمیر پالیسی کو اب بی جے پی نے چپکے سے منظور کرلیا ہے۔

کشمیری عوام کی سوچ کا مطالعہ کرنا بھی انتہائی مشکل ہے، بیشتر تشدد، سختیاں اور مصیبتیں جھیل رہے ہیں، ہزاروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، کوئی گھر بچا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو۔ ان حالات کے پیش نظر بعض لوگ پھر ووٹ کیوں ڈالتے ہیں؟ اس کا بھی جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا عوام اس جمہوری عمل پر یقین رکھیں گے کہ جس نے ان کی زمین، جائیداد، پرچم اور آئین چھین کر انہیں تین ماہ تک فوجی محاصرے میں بند رکھ کر اُف تک کرنے کی اجازت نہیں دی یا وہ پھر متحد ہوکر اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کریں گے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ