جموں و کشمیر انتخابات: ’بی جے پی کے خلاف ریفرنڈم‘

ان انتخابات میں واحد جماعت ہونے کے باوجود عوام کی بڑی اکثریت نے بی جے پی کو مسترد کر دیا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک آزاد امیدوار کے حامی جیت کا جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی)

دہلی کی جانب سے گذشتہ سال غیر قانونی طریقے سے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے بعد اب تک دو الیکشنز ہو چکے ہیں جو دونوں پنچایتی نوعیت کے تھے۔

پہلے الیکشنز بلاک ڈیولپمنٹ کونسل (بی ڈی سی) کے تھے جو دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد فوراً منعقد ہوئے۔ یہ الیکشنز باالوسطہ (Indirect) تھے۔ پورے جموں و کشمیر میں کل 310 بلاکز بنائے گئے تھے۔ ایک بلاک کے نیچے کئی پنچایتیں آتی تھیں اور بلاک لیول پر کونسلر کا انتخاب سرپنچوں کے ذریعے سے ہوا۔

دوسرے الیکشن جو حال میں ہوئے ہیں بھی پنچایتی نوعیت کے کرائے گئے۔ ان کا نام ضلعی ترقیاتی کونسلز(ڈی ڈی سی) تھا۔ یہ الیکشن بی ڈی سی مقابلے میں دو طرح سے منفرد اور اہمیت کے حامل تھے۔ اول، بی ڈی سی کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں تھا کیونکہ جو منتخب پہلے سے منتخب سرپنچ تھے انہیں میں سے انہیں کے ووٹوں سے ایک شخص بلاک لیول کونسلر منتخب ہوا۔

دوئم بی ڈی سی کے وقت تمام مین سٹرہم سیاسی قیادت نظر بند تھی اور ان کا کوئی کردار نہیں تھا بلکہ انہوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ صرف بی جے پی میدان میں تھی۔ اکیلے میدان میں ہونے کے باوجود بھی بھاجپا کو جموں کشمیر بھر میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ یہ 310 نشستوں میں صرف 81 نشستیں جیتی باقی تمام پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔

 آئیے اب جائزہ لیتے ہیں حال میں ہونے والے ڈی ڈی سی انتخابات کا۔ ڈی ڈی سی یعنی ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات ہیں۔ 70 سالہ تاریخ میں یہ انتخابات کبھی نہیں ہوئے۔

370 و 35 اے کو ہٹائے جانے اور ریاست کو دو حصوں میں توڑنے کے بعد کے بعد نئی دہلی کی جانب سے پورے جموں و کشمیر کو پنچایت گھر بنا دیا گیا ہے۔

جموں و کشمیر پنچائیتی ایکٹ 1989 میں ترمیم کر کے ضلع ترقیاتی کونسل کی پوسٹس شامل کی گئیں۔ دراصل اسطرح کے انتخابات کرانے کا اصل مقصد یہاں کی عوام کو ورغلا کے رکھنا ہے تا کہ لوگوں کی توجہ 370 و 35 اے سے ہٹی رہے اور اصل طاقت بھی ان کے پاس نہ آئے، بس پنچایتی انتخابات میں الجھا کے رکھا جائے اور آئے روز مودی حکومت خطہ میں نت نئے قوانین متعارف کرا کے اپنے مذموم سیاسی مقاصد پورے کرتی جائے۔

اگر بی جے پی حقیقت میں سنجیدہ ہے تو اسمبلی انتخابات کیو ں نہیں کرا رہی؟ ڈیڑھ سال گزر نے کے بعد فور جی انٹرنیٹ سروس کیوں بحال نہ کیا جا سکی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو یہاں پوچھنے والا غدار وطن گردانا جائے گا اور قید و بند کی صعوبتیں الگ سے۔

دسمبر کے مہینے میں ڈی ڈی سی کے انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات کل آٹھ مراحل میں ہوئے۔ پہلے مرحلہ کے لیے پولنگ یکم دسمبر جبکہ آٹھویں اور آخری کے لیے 19 دسمبر کو ہوئی۔ نتائج کا اعلان 22 دسمبر کو ہوا۔ جموں کشمیر کے اس وقت 20 اضلاع ہیں۔ پنچایتی راج 1989 میں ترمیم کر کے ہر ضلع کے لیے 14 ڈی ڈی سی سیٹیں رکھی گئی ہیں۔ ایک ضلع کو 14 constitutional territories میں تقسیم کیا گیا۔ ان کونسلرز کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوا۔

ان انتخابات میں جموں و کشمیر کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلز آلائنس فار گپکار ڈیکلریشن نے حصہ لیا۔ 370 کی منسوخی کے ایک سال بعد جموں و کشمیر میں وجود رکھنے والی قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے آرٹیکل 370 و 35 اے کو واپس دلانے کے لیے یہ اتحاد قائم ہوا تھا۔ اس اتحاد کے صدر نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، نائب صدر پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی جبکہ جنرل سیکرٹری جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون ہیں۔

گپکار اتحاد نے ان الیکشنز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا اصل منشور بی جے پی کو ہروانا تھا تاکہ مودی حکومت قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر نہ دے سکے کہ یہاں کی عوام اسکے 05 اگست 2019 والے اقدام سے خوش ہیں۔

کل 280 سیٹوں میں سے گپکار اتحاد نے 112 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ تمام تر لیول پلیئنگ فیلڈ کے باوجود بی جے پی صرف 75 نشستیں ہی سمیٹ سکی۔ یہاں یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ بی جے پی نے تمام نشستوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے جبکہ اتحاد کی چھ جماعتیں سیٹ شیرنگ فارمولے کے تحت الیکشن لڑ رہی تھیں۔ مثلاً جہاں سے نیشنل کانفرنس کا امیدوار میدان میں تھا وہاں اتحاد کی باقی پانچ جماعتوں کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس طرح انفرادی طور پر ایک جماعت کے حصے میں چند ہی سیٹیں تھیں، جیسا کہ پی ڈی پی نے کل 61 سیٹوں پر الیکشن لڑا جن میں 27 میں کامیابی حاصل کی، کیمونسٹ پارٹی کے حصے میں پانچ نشستیں آئیں اور پانچوں پر کامیابی حاصل کی۔ نیشنل کانفرنس اپنے حصے کی نشستوں میں سے 67 پر کامیابی حاصل کر کے اتحاد کی بڑی جماعت ہے۔

 آزادی اظہار رائے و دیگر شخصی آزادیوں پر بدستور پابندی عائد ہے۔ جو بھی ایک مخصوص بیانیے سے ہٹ کر بولنے کی جسارت کرتا ہے نظر بند کر دیا جاتا ہے۔ فاسٹ انٹرنیٹ مسلسل بند ہے۔ اتحاد کے لیڈروں پر شکنجہ کسنے کے لیے کرپشن کے الزامات بنائے گئے ہیں۔ اس کے برعکس بی جے پی کی قیادت کو پوری آزادی حاصل ہے۔

ان الیکشنز میں بھی اس جماعت کو ہر سطح پر پورا لیول پلیئنگ فیلڈ ملا، اندھا دھند خرچا کیا گیا، انتظامیہ بھی ان کی اپنی لیکن اس کے باوجود بھی وہ جیت نصیب نہ ہوئی جیسا سوچا تھا۔ گپکار اتحاد کے علاوہ لوگوں نے بی جے پی کے بجائے آزاد امیدواروں پر بھروسہ کیا۔ کل 50 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ شروع میں انڈین نیشنل کانگریس بھی اتحاد کا حصہ تھی لیکن بعد میں الگ حثیت میں الیکشنز لڑنے کا فیصلہ کیا اور صرف 26 سیٹیں ہی لے سکی۔

تمام تر بندشوں کے باوجود گپکار اتحاد کی واضح فتح اس بات کی روشن دلیل ہے کہ عوام جموں و کشمیر آئین ہند میں شامل خصوصی پوزیشن کو ہٹائے جانے کے سخت خلاف ہیں۔ گپکار اتحاد نے الیکشنز لڑا ہی 370 و 35 اے کو بنیاد پر تھا اور ان کی کامیابی کی اصل وجہ بھی یہی رہی وگر نہ جموں و کشمیر میں کی خصوصی پوزیشن کی منسوخی کے بعد عوام مین سٹریم سیاست سے بھی نالاں ہیں۔

اب وقت ہے کہ پیپلز آلائنس فار گپکار ڈیکلریشن جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لیے ڈٹ کر قانونی اور سیاسی جنگ لڑیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا