ججز ریفرنس پر وکلا برادری میں پھوٹ

ایک طرف وکلا برادری احتجاج کے لیے تیار ہے تو دوسری جانب مبینہ طور پر حکومتی حمایت یافتہ ’وکلا ایکشن کمیٹی‘ نے ریفرنس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

(اے ایف پی فائل )

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی  اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی تاریخ قریب آتے ہی ایک طرف وکلا برادری ریفرنس کے خلاف احتجاج کے لیے پر تول رہی ہے تو دوسری جانب مبینہ طور پر حکومتی حمایت یافتہ ’وکلا ایکشن کمیٹی‘ نے ایک کنونشن میں ریفرنس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

وکلا کی رجسٹرڈ تنظیموں نے کنونشن کو مسترد کرتے ہوئے اسے حکومتی اور پس پردہ قوتوں کی سازش قرار دیا۔

وکلا کی مرکزی تنظیم پاکستان بار کونسل نے ریفرنس بھیجنے پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کے استعفی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ کراچی بار  کونسل نے ان دونوں کی رکنیت منسوخ کر دی۔

ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں 14جون کو ہو گی اور اُسی روز وکلا تنظیموں  نے ’عدلیہ بچاؤ تحریک‘ بھرپور احتجاج سے شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں وکلا تحریک میں شرکت کا اعلان کر چکی ہیں۔

ریفرنس کے حامی وکلا کا کنونشن

ریفرنس پر پنجاب بار کونسل کی ایکشن کمیٹی نے اچانک 14 جون کی ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل سے ہڑتال کی کال واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پنجاب بار کونسل کے سیکریٹری ایڈووکیٹ شاہد گوندل کی سربراہی میں اسلام آباد میں وکلا ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں پنجاب بار کونسل سمیت ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے بعض نمائندے شریک ہوئے۔

اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ ریفرنس کے معاملے پر شخصیت کی نہیں بلکہ رول آف لا کی پیروی کرنی ہے۔

’ہمارا مقصد بےلاگ احتساب ہے اور ہمیں شخصیت کو نہیں بلکہ اداروں کو مضبوط دیکھنا ہے، آئین ججز کے احتساب کا فورم مہیا کرتا ہے۔‘

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سینیئر رکن رائے بشیر کھرل نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس بھیج کر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی، سپریم جوڈیشل کونسل کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔

’ہم جج بچاؤ تحریک نہیں چلائیں گے نہ ہی کسی جج یا سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے۔‘

صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ 2007’ کی وکلا تحریک کے وقت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے وکیل تھے’۔

پنجاب بار کونسل وکلا ایکشن کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کا احتساب ہوسکتا ہے۔ ’قانون سے کوئی بالاتر نہیں چاہے وہ جج ہی کیوں نہ ہو۔‘

اجلاس کے شرکا نے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ہڑتال کے اعلان سے لاتعلقی کا اعلان کیا جب کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی رکنیت معطل کرنے کی مذمت بھی کی۔

ججز ریفرنس کی حمایت میں کنونشن کس نے کرایا:

وائس چیئرمین پنجاب بارکونسل شاہنواز گجر کے مطابق اس کنوشن کا انعقاد پنجاب بار کونسل کے رکن ایڈووکیٹ شاہد گوندل نے کیا تھا۔

‎شاہد گوندل تحریک انصاف کے سرگرم رکن ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 67 سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔

‎شاہد گوندل کو تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں قانونی مشیر بھی تعینات کیا ہوا ہے۔

‎شاہد گوندل کے ساتھ اس اجلاس میں رمضان چودھری نامی وکیل بھی سرگرم رہے جو بابر اعوان کے معتمد خاص ہیں۔

‎اجلاس کے تیسرے اہم روح رواں جمیل بھٹی ایڈووکیٹ بھی تحریک انصاف میں شامل ہیں۔

مرکزی وکلا تنظیموں کا عزم

گزشتہ روز ریفرنس کے معاملے پر پاکستان بار کونسل اور چاروں صوبائی بار کونسلز کااہم اجلاس سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوا تھا، جس میں صوبائی بار کونسلز کے نمائندوں نےشرکت کرتے ہوئے ریفرنس کی 14 جون کو سماعت کے موقع پر ہڑتال کا اعلان کیا۔

پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے اجلاس میں فروغ نسیم اور انور منصور خان کی مذمت کرتے ہوئے دونوں سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کے وکلا نے 14جون کو عدلیہ بچاؤ تحریک کی تیاری مکمل کر لی ہے۔

انہوں نے کہا اس بار ماضی کی نسبت زیادہ شدت سے ججز کے خلاف بے بنیاد الزامات پر مبنی ریفرنس کے خلاف ردعمل ہوگا۔

’جو قوتیں عدلیہ کو دباؤ میں لاکر آلاکار بنانے کی خواہش رکھتی ہیں انہیں منہ کی کھانا پڑے گی۔‘

انہوں نے کہا: جو وکلا اپنی برادری کے خلاف استعمال ہوں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل شاہنواز گجر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ خیبر سے کراچی تک ہر چھوٹی بڑی وکلا تنظیم عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔

’حکومت اور اسٹیبلشمنٹ وکلا تحریک سے خوفزدہ ہیں اور اپنے نور نظر چند وکلا کو ساتھ ملاکر اسلام آباد میں کنونشن منعقد کرایا گیا جو ناکام رہا۔‘

’ میرا کام صرف ریفرنسز کو آگے بھیجنا تھا ‘

وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ججز کے خلاف ریفرنسز سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

’میرے پاس ریفرنسز ایف بی آر سے آئے، دستاویزات کی تصدیقی عمل کے بعد ریفرنسز آگے بڑھائے۔‘

’میرا کام صرف ریفرنسز کو آگے بھیجنا تھا، میرا پہلا تعلق بار اور پھر اس حکومتی عہدے سے ہے، ریفرنسز پر حتمی فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کرنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پر امن احتجاج وکلا کا حق ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔

’حکو مت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہیں ہٹا سکتی‘

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ حکو مت جسٹس عیسیٰ کو نہیں ہٹا سکتی۔

کیمبرج یونیورسٹی میں کیمبرج یونین سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ ریفرنس پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے، یہاں پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے ججز پر اعتماد کریں، وہ انصاف کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان