سلامتی، سانتا اور دسمبر

’مجھے نہیں معلوم اس کیمپ سے باہر کی زندگی کیسی ہوگی، پر میں نوروز منا سکتی ہوں، گردوارے جا سکتی ہوں، کرسمس ٹری سجا سکتی ہوں یہ سب کرنے کے بعد زندہ سلامت گھر واپس آ سکتی ہوں۔ اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہیے؟‘

بچپن میں کارٹون دیکھ کر میرا دل کرتا تھا کوئی سانتا آئے اور مجھے میرا من چاہا تحفہ دے جائے مگر ہمارے محلے کا سانتا چندہ مانگنے تو آتا مگر کچھ دینے دلانے نہیں (اے ایف پی فائل فوٹو)

دسمبر ہمارے ہاں دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی میں دن کو تلاش کرنے، بھاگتی دوپہروں میں ادھورے کام نمٹانے، خنک شاموں میں اداس کر دینے والی شاعری پڑھنے اور ٹھٹھرتی راتوں میں چلغوزے کھانے کا موسم ہوا کرتا تھا۔

لیکن امریکہ میں سانتا کا انتظار، چھٹیوں کی سوغات لیے کرسمس کے لیے ہر شخص بےقرار ہوتا ہے۔ کرسمس ٹری کو سجانے کے لیے نت نئے ڈیکوریشن پیس خریدے جاتے ہیں۔

دسمبر یہاں جِنگل بیلز کا موسم ہے۔ ہر طرف سے مدھر گھنٹیوں کے ساز اور بچوں کے گیت سنائی دیتے ہیں۔ برف الہام کی طرح روشنی بکھیرتی آسمان سے اترتی ہے۔

جرابیں تحفوں سے بھر جاتی ہیں اور چمنیوں سے قہمقے نکل کر دور دور تک گونجنے لگتے ہیں۔

لیسلی نے پوچھا، ’کیا ہم کیمپ کی خواتین کے تربیتی کمرے کو کرسمس کے لیے سجا سکتے ہیں؟‘ میں نے کہا،’ کیوں نہیں۔‘

پھر اگلے دن وہ خود گئی اور سجاوٹی اشیا اپنے پیسوں سے خرید لائی۔ جب تقریباً 35 خواتین سلائی کڑھائی کے لیے کمرے میں داخل ہوئیں تو انھیں دیوار پہ چپکی سرخ جرابیں، دروازے پہ لٹکی گھنٹیاں، برف سے ڈھکا، قمقموں سے سجا پائن کا درخت اور سبھی میزوں پہ سرخ پوش دیکھائی دیے تو وہ حیران ہو گئیں۔

کچھ خواتین پہلے سے کرسمس کے بارے میں جانتی تھیں گو کہ ان کی معلومات ادھوری تھیں کچھ بالکل نابلد تھیں۔

لیسلی نے مجھے کہا اب تم انھیں بتاؤ کرسمس دراصل کیا ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ میرے دماغ میں مُلا کی بات گونجنے لگی جو میں نے بچپن میں ان سے سنی تھی کہ کرسمس عیسائیوں کی عید ہوتی ہے اور عیسائیوں کی عید منانے والا کافر ہوتا ہے۔ تب میں ڈر گئی تھی۔

بچپن میں کارٹون دیکھ کر میرا دل کرتا تھا کوئی سانتا آئے اور مجھے میرا من چاہا تحفہ دے جائے مگر ہمارے محلے کا سانتا چندہ مانگنے تو آتا مگر کچھ دینے دلانے نہیں۔

میں نے افغان خواتین سے کہا جیسے ہم عید میلاد النبی مناتے ہیں اسی طرح عیسائی اپنے پیغمبر کی ولادت مناتے ہیں، بطور مسلمان ہم حضرت عیسیٰ کو پیغمبر مانتے ہیں تو ان کی ولادت منانے میں کیا حرج ہے؟

سبھی خواتین یک زبان ہو کر بولیں، ’کوئی حرج نہیں۔‘ اس دن سبھی خواتین نے اون سے ستارے بُنے، کرسمس ٹری، ننھی منی سانتا کی ٹوپیاں اور کروشیا سے سنو فلیکس بنائے۔

کچھ نے پھُندے بنا بنا کر دیواروں پہ ٹانکے۔ لیسلی، سسلی، انجیلا ان تحفوں کو دیکھ کر والہانہ خوش ہوئیں اور گلے لگا لگا کر سبھی خواتین کا شکریہ ادا کرتی رہیں۔

ہم نے مل کر چائے پی، چاکلیٹ چپ کوکیز کھائیں اور ڈھیر سارے قہقہے لگائے۔ وہ چار گھنٹے ہم نے بھائی چارے کی فضا میں شیر و شکر ہو کر گزارے اور انتہاپسندی کو بھنک تک نہیں پڑنے دی۔

میں واپسی پہ جب خزاں آلود خشک پتوں پہ پاؤں رکھتی اپنے کیمپ کی جانب بڑھ رہی تھی تو سرشار تھی۔

ہاں یہ سچ ہے میں نے اپنی مٹی سے جدائی کی پھانس کو ایسے گلے سے اتارا تھا جیسے کوئی سچا عاشق یک طرفہ محبت کو پی کر ڈھیر سارا درد لیے آگے بڑھ جاتا ہے۔

مگر میں خوش ہوں کہ میں سات سمندر پار چار مہینوں سے ایک ملٹری کیمپ میں پڑی کابل کو یاد کر کے رو تو دیتی ہوں مگر میرا تعلق کسی بےگناہ کی ماں کو رلانے والے قبیلے سے نہیں۔

وہ مائیں جو بچوں کو سجا سنوار کر سکول بھیجتیں اور واپسی پہ ان کے حسین بچوں کے ٹھنڈے برف جسد تابوت میں ان کے سامنے قربانی کے بکرے کی طرح پیش کر دیے جاتے۔

میں جانتی ہوں تاحیات ہر آنے والا دسمبر ان ماؤں کے اشکوں سے بھیگتا رہے گا۔ میں بہنوں سے بھائی چھیننے والوں میں سے نہیں، نہ ہی کسی عورت کی مانگ اجاڑ کر اسے زندگی بھر درد کے کٹہرے میں کھڑا کرنے والوں میں سے ہوں۔

میں نے بوڑھے باپ کے کندھوں پہ جوان بیٹوں کی میت نہیں اٹھوائی، میں اپنی جنت کی خاطر کسی کی دنیا اجاڑنے والوں میں سے نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب حالات نے میرے سامنے دو راستے رکھے تو میں نے تیسرے راستے کو چنا گو کہ وہ مشکل تھا مگر میں جانتی ہوں میری آنے والی نسلوں کے لیے یہ راستہ کبھی طعنہ نہیں بنے گا۔

جب میں مروں گی تو کم از کم مجھے یہ اطمینان ضرور ہو گا کہ جب پشاور اور کابل دھماکوں سے لرز رہے تھے تو میں ان دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھا رہی تھی۔

میں آواز اٹھاتے اٹھاتے اتنی دور اس لیے آ گئی کہ ساری دنیا میں مجھے بظاہر خوشی سے قبول کرنے والے یہی لوگ تھے۔

مجھے نہیں معلوم اس کیمپ سے باہر کی زندگی کیسی ہوگی، پر میں نوروز منا سکتی ہوں، گردوارے جا سکتی ہوں، کرسمس ٹری سجا سکتی ہوں یہ سب کرنے کے بعد زندہ سلامت گھر واپس آ سکتی ہوں۔ اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہیے؟

آخر کار میں سلامتی پہ ایمان لائی ہوں۔ مجھے سلامتی پھیلانے اور قبول کرنے میں کوئی عار نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ