گاڑیوں پر اون منی کا مطالبہ اور بابر کے مسائل

بابر علی نے کمپنی کے سیلز مین سے استفسار کیا کہ سرکار نے اون منی کے خاتمے کے لیے ایک لاکھ روپے اضافی ٹیکس لگایا تھا۔ سیلز مین نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ٹیکس گاڑی بیچنے والے پر نہیں بلکہ خریدنے والے پر لگایا گیا ہے۔

مارکیٹ میں دو طرح کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ ایک اوپن انوائیس گاڑی ہوتی ہے جو کہ کمپنی ڈیلر شپ کی ہوتی ہے اور دوسری انویسٹر کے نام پر ہوتی ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

نیم حکیم خطرہ جان۔ اس کہاوت کا اطلاق صرف افراد پر نہیں بلکہ ملکوں پر بھی ہوتا ہے اور تحریک انصاف کی معاشی پالیسیاں اس کہاوت کی عملی مثال ہیں۔

آپ گاڑیوں پر اون منی کم کرنے کے لیے سرکار کے لیے گئے فیصلوں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔ اور اس کا ذمہ دار حکومت کے نا تجربہ کار فیصلہ سازوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔

بابر علی پیرزادہ نجی بینک میں کام کرتے ہیں۔ وہ نئی گاڑی خریدنے کے لیے ایک بڑی کار کپمنی کی ڈیلر شپ پر گئے۔ جہاں انھیں بتایا گیا کہ اگر آپ آج گاڑی بُک کروائیں گے تو سات ماہ بعد گاڑی ملے گی۔ اگر فورا گاڑی چاہیے تو ساڑھے تین لاکھ روپے اون منی ادا کرنا ہو گی۔ بابر صاحب سوچنے لگے کہ حکومت نے اون منی ختم کرنے کے لیے پہلی رجسٹریشن پر ایک لاکھ روپے اضافی ٹیکس لگایا تھا اور دعوی کیا تھا کہ اس سے اون منی کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ لیکن مارکیٹ میں تو حالات مختلف ہیں۔ انھوں نے کمپنی کے سیلز مین سے استفسار کیا کہ سرکار نے اون منی کے خاتمے کے لیے ایک لاکھ روپے اضافی ٹیکس لگایا تھا۔ سیلز مین نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ٹیکس گاڑی بیچنے والے پر نہیں بلکہ خریدنے والے پر لگایا گیا ہے۔

مارکیٹ میں دو طرح کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ ایک اوپن انوائیس گاڑی ہوتی ہے جو کہ کمپنی ڈیلر شپ کی ہوتی ہے اور دوسری انویسٹر کے نام پر ہوتی ہے۔ اگر ڈیلر شپ والی گاڑی خریدیں گے تو اس پر کوئی اضافی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ صرف ساڑھے تین لاکھ روپے اون دینا ہو گا۔ اگر انویسٹر کی گاڑی خریدیں گے تو اون کے ساتھ رجسٹریشن پر ایک لاکھ روپے سرکاری خزانے میں اضافی ادا کرنا ہوں گے۔ یعنی کہ گاڑی پر ساڑھے چار لاکھ روپے اضافی دینا ہوں گے۔ لیکن اوپن انوائیس گاڑی بہت مشکل سے ملے گی۔ کیونکہ ڈیلرشپ کا محدود کوٹہ ہوتا ہے۔

عمومی طور پر ان کی ساری گاڑیاں انویسٹرز لے جاتے ہیں۔ اگر اون پر گاڑی لینی ہے تو انویسٹر کی گاڑی لینا ہو گی۔ بابر صاحب سوچنے لگے کہ حکومت کے اضافی ٹیکس لگانے سے گاڑیوں پر اون کی رقم کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے اور یہ کاروبار پہلے سے زیادہ پھل پھول رہا ہے۔ عام آدمی کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔ اوّل تو گاڑی سات ماہ بعد ملے گی۔اگر اون پر اضافی ٹیکس کے بغیر گاڑی لینا چاہیں تو اوپن انوائیس گاڑی نہیں ملے گی۔ مجبوراً انویسٹر سے گاڑی لینا پڑے گی۔ اون منی کا کاروبار کرنے والوں کی تو ابھی بھی چاندی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار نے اضافی ٹیکس اون ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اون کے کاروبار کو بڑھانے کے لیے لگایا ہے۔

بابر صاحب نے یہ پریشانی دوسرے برانڈ کی کار کمپنی میں کام کرنے والے ایک دوست سے شئیر کی تو اس نے بتایا کہ اون منی کا کاروبار بڑھانے میں سرکار خود ملوث ہے۔ وہ جان بوجھ کر ایسے قوانین بنا رہی ہے جس سے اس کاروبار کو تقویت مل رہی ہے۔ کیونکہ مبینہ طور پر بیوروکریٹس، سیاستدان اور ملک کی اشرافیہ خود اس کاروبار میں ملوث ہے۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک حکومت پاکستان کے قانون کے مطابق ایک شخص ایک سال میں ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک گاڑی بُک کروا سکتا تھا۔ لیکن اب چُپ کر کے یہ قانون تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نئےقانون کے مطابق ایک شخص ایک شناختی کارڈ پر ایک سال میں دس کروڑ روپے کی گاڑیاں بُک کروا سکتا ہے۔ ایسے قوانین کار کمپنیوں کی مداخلت کے بغیر نہیں بنائے جا سکتے۔ وہ بھی اون منی کے دھندے میں پوری طرح ملوث ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ گاڑیاں بیچنا چاہتے ہیں اور حکومتی پالیسی بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کار کمپنیوں کی ڈیلر شپ کے تعاون کے بغیر اون منی کا کاروبار نہیں چل سکتا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اون منی کاروبار کے اصل کھلاڑی ڈیلر شپ والے ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔وہ ایک طرف اوپن انوائیس گاڑیاں بیچ کر اس پر اون کماتے ہیں۔ اور دوسری طرف انویسٹرز کی گاڑیاں بیچ کر بھی اون کمانے کا راستہ بنا رکھا ہے۔اکثر  ڈیلرشپس انویسٹرز کی گاڑیاں اس شرط پر بُک کرتی اور بیچتی ہیں کہ اون منی کا بیس یا تیس فیصد حصہ ڈیلر شپ کو ملے گا۔

اس نے مزید کہا کہ اس مسئلے کا حل کار بنانے والی کمپنیوں کے پاس موجود ہے۔ جب کمپنی کو معلوم ہے کہ ملک میں کار کی طلب زیادہ ہے تو زیادہ گاڑیاں بنا کر اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ تقریبا چالیس سالوں سے چند کار کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں لیکن ڈیمانڈ کے مطابق گاڑیاں تیار نہیں کی جا رہیں۔ بلکہ نئی آ آنے والی کمپنیاں بھی بھاری اون کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جب کہ تاثر یہ تھا کہ نئی آنے والی کمپنیوں سے مقابلے کی فضاقائم ہو گی اور اون کم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنی پروڈکشن کیپسٹی نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سرکار کپیسٹی بڑھانے کی اجازت دے رہی ہے اور کمپنی کے پاس وسائل بھی موجود ہیں تو کیوں نئے پلانٹ لگا کر زیادہ گاڑیاں نہیں بنائی جا رہیں۔دانستہ طور پر کم گاڑیاں بنانا اس موقف کو تقویت دیتا ہے کہ کار بنانے والی کمپنیاں جان بوجھ کر مصنوعی قلت پیدا کرتی ہیں۔ تا کہ ڈیلر شپ بھی منافع کما سکے اور گاڑیوں کی مانگ بھی بڑھتی رہے۔

بابر صاحب ابھی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ اسی پریشانی میں انھوں نے اخبار میں خبر پڑھی کہ آٹو موٹیو ڈویلپمنٹ پالیسی 2016-2021 ایکسپائر ہونے بعد سرکار نے 2021 سے 2026  کے لیے نئی آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی منظور کی ہے۔ جس میں گاڑیاں اور ان کے سپئر پارٹس برآمد کرنے کے اہداف دیے گئے ہیں۔ آئندہ سال دو فیصد، 2024 تک چار فیصد اور 2025 تک سات فیصد گاڑیاں برآمد کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ بابر صاحب سوچنے لگے کہ جس ملک کی عوام کو گاڑیاں سات ماہ بعد مل رہی ہوں اس ملک کا گاڑیاں برآمد کرنے کی پالیسی بنانا اور اس کے احداف مقرر کرنا مضحکہ خیز ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں گاڑیاں بنائی نہیں جاتیں بلکہ جوڑی جاتی ہیں۔ جن کا سامان درآمد کیا جاتا ہے۔ سپئر پارٹس درآمد کر کے گاڑیاں جوڑنا اور پھر اس گاڑی کو برآمد کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ جو کمپنی پاکستان کو گاڑیاں بنا کر دے رہی ہے وہ اپنے ملک سے گاڑیاں بنا کر مطلوبہ ملک میں براہ راست برآمد کر سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے ملک میں گاڑیوں کے پارٹس بنا کر برآمد کرنے کی تو ایسا فی الحال مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ ملک میں کاروبار کرنے کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔ شرح سود میں پونے تین فیصد اضافے کے بعد بینکوں سے قرض لینے کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اور مہنگائی میں ساڑھے گیارہ فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ان حالات میں سستی اور معیاری پراڈکٹ بنانا اور بیرون ملک اس کے کسٹمرز تلاش کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ انھوں نے پڑھا کہ سرکار نے آٹو سیکٹر مانیٹر کمیٹی قائم کی ہے جو کار کمپنیوں پر نظر رکھے گی کہ آیا وہ قیمتوں، معیار اور اون منی کے حوالے سے نئی پالیسی کے مطابق کام کر رہی ہیں یا نہیں۔ بابر صاحب سوچنے لگے کہ ملک پاکستان میں لاکھوں مسائل حل کرنے کے نام پر سینکڑوں کمیٹیاں پہلے ہی کام کر رہی ہیں جن سے ملک کو شائد ہی کوئی فائدہ حاصل ہوا ہو۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان نامی ادارہ بھی اسی دعوے کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ لیکن وہ آج تک ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔

ان ایشوز میں بابر صاحب کا سب سے بڑا مسئلہ اون منی ہے۔ کیونکہ وہ اس سے برارہ راست متاثر ہیں۔ اس مسئلے کے قابل عمل حل کے بارے میں جاننے کے لیے جب میں نے مشہور کار کمپنی میں کام کرنے والے ایک سینئر آفیسر منظر زبیر سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ اکثر کار کمپنیاں اون منی کو روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔ اس کاروبار کو روکنے کے لیے سرکار، کارکمپنیوں، ڈیلر شپ اور عوام کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ بدقسمتی سے عوام بھی ان گاڑیوں میں زیادہ دلچسپی دکھاتی ہے جن پر اون زیادہ ہو۔ ابھی حال ہی میں ایک ماڈل کی گاڑی پر کمپنی نے اون ختم کر دیا۔ عوام نے یہ کہہ کر گاڑی خریدنا چھوڑ دیا کہ لگتا ہے کہ گاڑی فیل ہو گئی ہے۔ اس لیے اون نہیں لے رہے۔ جب اسی گاڑی پر دو لاکھ روپے اون بڑھا دیا گیا تو اس کی فروخت میں اضافہ ہو گیا۔ اب لوگ سفارش کروا کر وہی گاڑی اون پر خرید رہے ہیں۔ صرف سرکار اور کارکمپنیوں کو قصور وار ٹہرانا مناسب نہیں۔ عوام کو بھی ذمہ داری اٹھانا ہو گی۔اس کے علاوہ سرکار کو بھی چاہیے کہ وہ گونگلوں پر سے مٹی جھاڑنے کی بجائے قابل عمل پالیسیز بنائے۔ نئی کمیٹیاں بنانے سے رشوت کا ریٹ بڑھے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جن کمپنیوں نے چالیس سالوں میں مقامی طلب پوری کرنے کے لیے پیداواری صلاحیت نہیں بڑھائی ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور ایک مخصوص مدت کے بعد ان کے لائسنس معطل کیے جائیں۔ اس سے گاڑیوں کا اون بھی ختم ہو سکے گا اور معیاری، سستی گاڑیاں بھی مارکیٹ میں آ سکیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ