’دہشت زدہ‘: اقوام متحدہ عہدیدار کی میانمار میں مبینہ ہلاکتوں کی مذمت

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تصاویر سامنے آئی تھیں جن میں میانمار میں ایک ہائی وے پر دو جلے ہوئے ٹرک اور ایک کار کو دکھایا گیا تھا، جس کے اندر لاشوں کی جلی ہوئی باقیات موجود تھیں۔

6 جولائی 2021 کو لی گئی اس تصویر میں  میانمار میں فوج کے خلاف بنائی گئی پیپلز ڈیفنس فورس کے ارکان کو ریاست کایاہ میں ڈیموسو کے قریب اپنے کیمپ میں فوجی تربیت میں حصہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا ہے کہ وہ میانمار میں کم از کم 35 شہریوں کی ہلاکت کی رپورٹس پر دہشت زدہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں جس کا الزام حزب اختلاف کے کارکنوں نے سرکاری فوجیوں پر لگایا تھا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق حکمران فوج نے جمعے کو ریاست کایاہ میں موسو گاؤں کے قریب پیش آنے والے واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور جنتا کے ترجمان زاو من تون سے تبصرے کے لیے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔

سرکاری ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ فوجیوں نے حکومت کے خلاف لڑنے والے ’اسلحہ بردار دہشت گردوں‘ پر فائرنگ کی اور انہیں ہلاک کر دیا۔ تاہم ریاستی ذرائع ابلاغ نے شہری ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تصاویر سامنے آئی تھیں جن میں ایک ہائی وے پر دو جلے ہوئے ٹرک اور ایک کار کو دکھایا گیا تھا، جس کے اندر لاشوں کی جلی ہوئی باقیات موجود تھیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیپلز ڈیفنس فورسز (پی ڈی ایف)، جو حکومت سے لڑنے کے لیے ملک بھر میں ابھری ہے، کے ایک رکن نے بتایا کہ اس کے جنگجوؤں کو یہ گاڑیاں ہفتے کی صبح جلی ہوئی ملی تھیں۔

پی ڈی ایف کے رکن نے بتایا کہ اس سے پہلے سننے میں آیا تھا کہ فوج نے جمعے کو قریبی جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد کئی گاڑیوں کو روک لیا ہے۔

اس واقعے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈی نیٹر مارٹن گریفتھس نے کہا ہے کہ کم از کم ایک بچے سمیت شہریوں کے قتل کی اطلاعات قابل بھروسہ ہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’میں اس سنگین واقعے اور ملک بھر میں شہریوں کے خلاف تمام حملوں کی مذمت کرتا ہوں جو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت ممنوع ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گریفتھس نے ’مکمل اور شفاف‘ تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور شہریوں کا تحفظ کیا جاسکے۔

مقامی افراد اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے بتایا کہ فوجیوں نے عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ گروپ کی جانب سے پوسٹ کی گئی تصاویر میں جلی ہوئی لاشیں دکھائی گئی ہیں جن میں سے کچھ جلائے گئے ٹرک کے پچھلے حصے میں موجود ہیں۔

یکم فروری کو فوج کی جانب سے نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے میانمار میں حالات کشیدہ ہیں۔

ایسوسی ایشن فار اسسٹنس آف پولیٹیکل پرزنرز رائٹس گروپ کے اعداد و شمار کے مطابق مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 1300 سے زائد افراد ہلاک اور 11 ہزار سے زائد کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔

تاہم میانمار کی فوج کو ہلاکتوں کے ان اعدادوشمار سے اختلاف ہے۔

روئٹرز کے مطابق فوج کے کچھ مخالفین نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق نسلی اقلیتی گوریلا سے ہے جو برسوں سے مشرق میں کایاہ ریاست سمیت ملک کے مختلف حصوں میں حق خودارادیت کے لیے حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

دوسری جانب امدادی گروپ ’سیو دی چلڈرن‘ نے بتایا کہ اس کے دو کارکن، جو سال کے آخر میں چھٹیوں کے لیے اپنے آبائی دیہات کا سفر کر رہے تھے، حملے میں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ جس کے بعد اس گروپ نے کایاہ ریاست اور پڑوسی ریاست کیرن اور میگوے خطے کے کچھ حصوں میں کارروائیاں معطل کر دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا