اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے خلاف الزام لگانے والے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے سات جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے برطانیہ میں اپنے ایک بیان حلفی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ٹیلی فون پر ایک جج سے کہا تھا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کی ضمانتیں نہیں ہونی چاہییں۔
آج اس کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں رانا شمیم کا لندن میں لکھا گیا بیان حلفی سربمہر لفافے میں پیش کیا گیا، جو انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ میں خبر شائع ہونے کے ایک مہینے بعد پیش کیا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے رانا شمیم کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کورٹ چاہتی ہے یہ آپ کے سامنے اوپن ہو اور آپ دیکھ لیں کہ اس میں کیا ہے؟
’یہ ہمیں کوریئر کے ذریعے ملا، اس میں کہیں کسی اور کا لیٹر نہ ہو۔‘ جس پر عبدالطیف آفریدی نے کہا کہ ’یہ لفافہ میں نہیں کھولوں گا، عدالت نے منگوایا ہے وہی اوپن کریں۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے دریافت کیا کہ ’کیا یہ دستاویز سابق جج کا حلف نامہ ہے؟ اور کیا انہوں نے خود اس پر مہر لگائی؟‘ جس پر رانا شمیم نے اثبات میں جواب دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے حلف نامے کی کاپیاں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سے قبل سابق چیف جج رانا شمیم کو گذشتہ تین سماعتوں میں اپنا اصلی حلف نامہ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ حلف نامہ لکھوانے والے رانا شمیم، پبلشر اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری اور سینئیر صحافی انصار عباسی کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے گی۔
’دی نیوز‘ میں چھپنے والے رانا شمیم کے حلف نامے میں، جس پر انصار عباسی کی رپورٹ مبنی تھی، رانا شمیم نے مبینہ طور پر کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کے اپنے دورے کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو فون کیا اور انہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ ملنے کو یقینی بنانے کی ہدایت دی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بعد ازاں رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے انصار عباسی، میر شکیل الرحمٰن، عامر غوری اور رانا شمیم کو توہین عدالت آرڈیننس کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
منگل کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت میں جمع کروائے گئے رانا شمیم کے تحریری جواب نے سارا الزام صحافی انصار عباسی پر ڈال دیا ہے اور کہا کہ سابق چیف جج نے حلف نامہ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صحافیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے ذرائع کا انکشاف کریں لیکن یہ عدالت ایسا نہیں کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے نوٹ کیا کہ بیان حلفی کا فونٹ کیلیبری لگتا ہے، یہ وہی فونٹ ہے جو پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے پاناما پیپرز لیک کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جمع کروائی گئی اہم دستاویزات میں استعمال کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم کے وکیل عبدالطیف آفریدی سے استفسار کیا کہ ’عدالت کو صورت حال کو دیکھتے ہوئے الزامات طے کرنے کی طرف کیوں نہیں جانا چاہیے؟‘ جس پر لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ ’وہ الزامات کے تعین پر بحث کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد علی شاہ، جو اس کیس میں عدالتی معاون ہیں، نے کہا کہ ’حلف نامے میں نامزد افراد اپنے جوابات جمع کروائیں تاکہ کیس کی کارروائی آگے بڑھ سکے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا پاکستان بار کونسل پہلی نظر میں کہہ رہی ہے کہ حلف نامے میں جو لکھا گیا ہے وہ درست ہے؟ جبکہ مذکورہ جج اس وقت چھٹی پر تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ کے دو ججوں پر شکوک پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ پاکستان بار کونسل کو اس معاملے پر انتہائی واضح موقف اختیار کرنا ہوگا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ایک موقع پر کہا کہ ’اس معاملے کا سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کی وجہ سے کارروائی شروع ہوئی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا: ’یہ خیال پیدا کیا جا رہا ہے جسے ہر کوئی سچ ماننے لگا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں متعلقہ دستاویز بہت اہم ہے جبکہ عبدالطیف آفریدی نے کہا کہ رانا شمیم نے حلف نامے کو نجی دستاویز قرار دیا ہے اور یہ ان کی اہلیہ کی درخواست پر لکھا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ’اب تک رانا شمیم کو بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ معاملہ کتنا حساس ہے۔‘
لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ ’فردوس عاشق اعوان کے خلاف سپریم کورٹ میں اور عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات چلائے گئے، ان کیسز میں کیا ہوا؟ ایسے کیسز شروع ہوتے ہیں اور عدالت کو رحم کرنا پڑتا ہے۔‘
سابق جج کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’رانا شمیم نے اپنا حلف نامہ پریس کو لیک نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو دیا۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ انصار عباسی نے اپنا ذریعہ بتانے سے انکار کر دیا ہے اور انہیں بطور صحافی کچھ مراعات حاصل ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقعے استفسار کیا کہ ’کیا رانا شمیم نے اپنی رازداری کی خلاف ورزی پر کوئی کارروائی کی؟‘ جس پر لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ ’توہین عدالت کیس کی وجہ سے کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی۔‘
اس کے بعد جج نے لطیف آفریدی سے کہا کہ ’وہ بتائیں کہ حلف نامے کا فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟‘ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’وہ نہیں جانتے اور نہ ہی یہ ان کا کام ہے۔‘
لطیف آفریدی نے کہا کہ حلف نامے کے لکھے جانے کے وقت رانا شمیم کو اس کے نتائج کے بارے میں نہیں معلوم تھا۔
جج اطہر من اللہ نے اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا کہ ’فائدہ اٹھانے والے کون تھے؟‘ جس پر لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتے اور عدالت سے درخواست ہے کہ اس معاملے پر وقت ضائع نہ کیا جائے کیونکہ دیگر بہت زیادہ مقدمات عدالت میں زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہوگا اگر کلبھوشن جادھو (بھارتی جاسوس) نے حلف نامہ جمع کرایا کہ اس کا کیس اس عدالت کو نہیں سننا چاہیے کیونکہ اس پر سمجھوتہ ہوا ہے۔
’یہ ایک سنگین معاملہ ہے، اس حلف نامے کے نتائج کو سمجھیں۔‘
انہوں نے لطیف آفریدی سے کہا کہ وہ ثبوت پیش کریں کہ عدالت سے مبینہ طور پر سمجھوتہ کیسے کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت سات جنوری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
بعد ازاں عدالت کے باہر ایک سوال کے جواب میں رانا شمیم نے اعتراف کیا کہ حلف نامے کی تصدیق کے وقت وہ اکیلے تھے۔