خیبرپختونخوا میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق صوبے کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے 87 فیصد نوجوانوں کے خیال میں بھارت پاکستان کا ’دشمن‘ نہیں ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹیڈیز (پیپس) کی جانب سے ’یوتھ پرسپیکٹیو آن سوسائٹی، ریلیجن اینڈ پولیٹکس،‘ کے عنوان سے کرائے جانے والا سروے گذشتہ روز پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں تقریب کے دوران پیش کیا گیا۔
سروے رپورٹ جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں لکھا ہے کہ اس سروے رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے پیپس کی جانب سے نوجوانوں کے لیے مختلف ورک شاپس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مجموعی طور پر 183 نوجوانوں نے شرکت کی۔
ان 183 نوجوانوں میں 25 نوجوانوں کو مزید تحقیق کے لیے منتخب کیا گیا اور ان کا انٹرویو لیا گیا جب کہ اس سروے کے لیے 400 سے زائد نوجوانوں کو سوالنامہ دیا گیا تھا۔
سروے رپورٹ کے پراجیکٹ اور انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والے محمد عامر رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سروے رپورٹ کے لیے انہوں نے خیبر پختونخوا کی مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ کو سوالنامے دیے تھے جس میں یہ نتائج سامنے آئے ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق سوالنامے میں اظہار رائے، خواتین، نوجوانوں کے روزگار، تعلیم، سیاست، آمریت اور کچھ ایسے مفروضوں کے حوالے سے سوالات شامل کیے گئے تھے جو ہمارے معاشرے میں بہت عام ہیں۔
سروے میں جن نوجوانوں کو منتخب کیا گیا تھا، ان میں سے 13 فیصد نوجوانوں کے مطابق بھارت پاکستان کا دشمن ملک ہے۔
تاہم اسی سروے میں ان نوجوانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ کیا پاکستان کو بھارت کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کرنا چاہیے، جس کے جواب میں 66 فیصد نوجوانوں نے ہاں میں جواب دیا جب کہ 44 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ ’بھارت کے خلاف دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
سروے رپورٹ میں ایک اور سوال بھی کیا گیا جو ہمارے معاشرے میں ایک عام مفروضہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بیرونی ممالک کی سازش ہے۔ اس سوال کے جواب میں 50 فیصد نوجوانوں کے مطابق مذہبی انتہا پسندی کی ایک بنیادی وجہ بیرون ممالک کی سازشیں ہیں جب کہ دیگر 50 فیصد اس بات سے متفق نہیں ہیں۔
رپورٹ میں ایک اور اہم موضوع کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو پاکستان میں سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق 74 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ ’ہمارے ملک کے ریسورسز کرپٹ سیاست دانوں کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں‘ جب کہ باقی 27 فیصد نوجوان اس بات سے متفق نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مغربی میڈیا کے حوالے سے بھی نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ کیا مغربی میڈیا پاکستان کے امیج کو ’خراب‘ کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے؟ اس کے جواب میں 66 فیصد نوجوانوں نے رائے دی کہ ’مغربی میڈیا پاکستان کے تاثر کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ جب کہ باقی 44 فیصد سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔
ایک دلسچسپ سوال اس سروے رپورٹ میں شامل کیا گیا کہ عموماً یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے ’مغربی ایجنڈا‘ کے پیروکار ہیں، تاہم سروے رپورٹ کے مطابق 82 فیصد نوجوان اس مفروضے سے متفق نہیں ہیں کہ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے مغربی ایجنڈے پر کار فرما ہیں۔
علاقائی زبانوں کے حوالے سے بھی سروے میں ایک سوال شامل کیا گیا تھا۔ سوال میں پوچھا گیا تھا کہ کیا علاقائی زبانیں اتنی ہی اہم ہیں جتنی اردو ہے؟ جس کے جواب میں 86 فیصد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ علاقائی زبانیں اتنی ہی اہم ہیں جتنی اردو ہے جب کہ 13 فیصد اس بات سے متفق ہیں کہ اردو علاقائی زبانوں سے زیادہ اہم ہے جب کہ ایک فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے کچھ علم نہیں ہے۔
تقریب میں شرکت کرنے والے خیبر پختونخوا سمبلی اور قومی اسمبلی کے رکن ولسن وزیر کا کہنا تھا کہ اس قسم کی رپورٹ جس میں نوجوانوں کی رائے سامنے آتی ہے، اسمبلی فورم میں بحث کے لیے پیش کی جانی چاہے تاکہ اس پر سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے تعلیمی نصاب سے نفرت انگیز مواد کو نکالنا چاہیے تاکہ نوجوانوں میں پر تشدد خیالات کا خاتمہ ہو سکے۔‘
سپریم کورٹ کے شریعہ ایپلیٹ بینچ کے جج ڈاکٹر خالد مسعود بھی تقریب میں شریک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پالیسی بنانے والے اور تحقیق کرنے والوں کے درمیان ایک بڑا فاصلہ موجود ہے جس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
’ہمارے معاشرے میں تنوع کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی آرا کا احترام کر سکیں۔‘
رپورٹ میں حکومتی نمائندوں اور پالیسی بنانے والوں کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ رپوٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ حکومت ’سیلیکٹیو‘ تاریخ کو نصاب سے ہٹائیں تاکہ نوجوانوں کو درست تاریخ کا علم ہو، جب کہ نصاب میں موجود غیر مسلموں کے خلاف مواد کو بھی ہٹانا ضروری ہے۔