بلوچستان میں تعلیم کی بہتری کے لیے 72 ارب کا منصوبہ  

1990 میں جب ایجوکیشن فار آل کا منصوبہ سامنے آیا تھا تو بلوچستان میں پرائمری سکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اورہر جگہ سکول کھولے گئے۔ 

8 ستمبر 2016 کو کوئٹہ میں خواندگی کے عالمی دن کے موقع پر طلبا ایک سرکاری اسکول میں کلاس میں پڑھ رہے ہیں (اے ایف پی)

بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کی تحصیل تمبو سے تعلق رکھنے والی تسمینہ پانچویں کلاس کی طالبہ ہیں اور ایسے سکول سے تعلیم حاصل کر رہی ہیں جس کی نہ تو چاردیواری ہے بلکہ دروازہ تک ٹوٹا ہوا ہے۔ 

تسمینہ نے بتایا کہ سکول کے کلاس رومز میں کرسیاں، ٹاٹ، تختہ سیاہ کی کمی ہے۔ واش رومز میں پانی نہیں ہے۔ چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے، بجلی، پنکھے اور پانی کے مسائل ہیں۔ 

وہ کہتی ہیں کہ سکول میں پینے کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے طالبات تالاب کا پانی پیتے ہیں، جس سے وہ بیمار ہوجاتے  ہیں اور سکول سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ 

تسمینہ نے بتایا: ’میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ میرا یہاں تعلیم کے حوالے سے فیصلہ سازی کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا میں اس طرح تعلیم حاصل کرکے اپنا خواب پورا کرسکتی ہوں۔‘

 بلوچستان کے سکولوں کی ایک تصویر دکھانے والی یہ بچی صوبے کے تعلیمی سیکٹر کے پانچ سالہ منصوبے کے رونمائی کی تقریب سے خطاب کررہی تھی۔ 

 یہ منصوبہ بڑی عرق ریزی اور محنت کے بعد بنایا گیا ہے۔ جس میں ان بنیادی مسائل کو تلاش کیا گیا۔ جس سے سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کا کوئی خاص نتیجہ بظاہر نہیں نکل رہا ہے۔ 

یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کے تعلیم کےحوالے سے منصوبہ بنانے والے پالیسی پلاننگ اینڈ امپلیمنٹیشن یونٹ کے چیف پلاننگ آفیسرعبدالخالق کا جو سمجھتے ہیں کہ اب ہم اپنے مسائل اور ان کے حل سے  واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔ 

عبدالخالق نے ایک خصوصی انٹرویو میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس سے قبل ہم نے 2013 میں ایک سیکٹر پلان بنایا تھا اور اب یہ دوسرا ہے۔ اب بھی ہم نے دیکھا کہ بعض مسائل جو پہلے سامنے لائے تھے وہ اب بھی موجود ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سکولوں تک رسائی، بچوں کے پڑھنے میں کمزوری اورسکولوں سے باہر بچوں کے مسائل اس وقت بھی جوں کے توں ہیں، تاہم کچھ بہتری آئی ہے۔  

عبدالخالق نے بتایا: ’موجودہ منصوبہ اس وجہ سے مختلف ہے کہ اس میں ہم نے محور طالبعلم کو رکھا ہے۔ جو بھی کام ہوگا وہ اس کے ارگرد گھومے گا۔‘

  منصوبے کی تیاری کے لیے ہمارے لوگوں نے بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں جاکر تقریباً تین ہزار کے قریب لوگوں سے انٹرویوز کیے اور مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ 

انہوں  نے بتایا کہ جب 1990 میں ایجوکیشن فار آل کا منصوبہ سامنے آیا تھا تو بلوچستان میں پرائمری سکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اورہر جگہ سکول کھولے گئے۔ 

عبدالخالق کہتے ہیں کہ اس وقت جو مسائل ہمارے سامنے آئے ہیں کہ پرائمری سکولوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن مڈل سکول کم ہیں۔ اکثر علاقوں میں یہ مسئلہ ہے۔ دوسرا سکولوں تک رسائی کا ہے۔ 

72 ارب کی لاگت 

پالیسی پلاننگ اینڈ امپلیمنٹیشن یونٹ کے چیف عبدالخالق نے بتایا کہ اس منصوبے کا عام آدمی سے ایسا تعلق ہے کہ اس سے اس کا حکومت اور تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور وہ اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیجں گے۔ 

 انہوں نے بتایا کہ یہ ادارہ اس منصوبے کا نگران ہے۔ جو یہ دیکھے گا کہ اس پر عمل ہورہا ہے یا نہیں اور مسائل کیا سامنے آرہے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا: ’منصوبے پر پانچ سال کے دوران 72 ارب  روپے کا خرچہ ہوا ہے۔ ہمیں یورپی یونین نے ایک لاکھ 80 یوروز، گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن نے دو سو لاکھ ڈالر، اور یونیسف نے 4 اعشاریے 8 ملین یعنی چار کروڑ 800 لاکھ یورز دیے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ صوبائی تعلیمی بجٹ سے ہٹ کر اس کے لیے فنڈ فراہم کرے گا۔ 

سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی استعداد کار 

عبدالخالق کا کہنا تھا کہ جب ہم یہ منصوبہ تیار کررہے تھے تو یہ پتہ چلا کہ آج بھی بلوچستان کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچے سیکھ نہیں رہے۔ ان میں حسابی پڑھائی اور تجزیاتی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ 

’بچے خاص کر لڑکیوں کی بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے۔ صنفی تفریق اور بڑے رقبے پر سکولوں کا نہ ہونا بھی مسئلہ ہے۔ تحقیق کی عدم موجودگی کے باعث بچے حقیقی حالات معاشرے کی ضروریات اورتعلیم خدامات کی فراہمی کے مابین مطابقت کا نہ ہونا بھی ہے۔‘ 

محکمہ تعلیم کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں اس وقت 10 لاکھ 4 ہزار 242 بچے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ 

عبدالخالق نے بتایا کہ ہماری تحقیق میں اہم مسئلہ یہ سامنے آٰیا کہ اس وقت ہمیں بچوں کو سکول تک رسائی کا مسئلہ حل کرنا چاہیے بہت سے بچے اس وجہ سے سکول نہیں جاتے کہ ان کے پاس سواری نہیں ہے۔ 

 وہ مزید بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت 12 ہزار 218 پرائمری سکول ہیں۔ جس کے مقابلےمیں مڈل سکولوں کی تعداد ایک ہزار 519 ہے۔ معیار یہ ہے کہ ہر تین پرائمری سکول کے مقابلے میں ایک مڈل ہونا چاہیے۔ 

  انہوں نے کہا کہ اب حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہر جگہ مڈل اورہائی سکول قائم کرے۔ تو وہاں ہم طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کریں گے۔ 

دوسری بات یہ کہ حکومت ان علاقوں میں پرائمری سکول قائم کرے گی جہاں موجود نہیں ہیں۔

چیف پلاننگ آفیسر کہتے ہیں کہ جب انہوں نے طلبہ سے بات کی ان کے  والدین اور علاقے کے لوگوں سے بات کی تو مسائل کی بہتر تصویر ہمارے سامنے آئی۔ 

 خالق کہتے ہیں کہ بلوچستان میں جب اتنے سارے بچے سکول تو جارہے ہیں لیکن  وہ پڑھ نہیں سکتے اس لیے انہوں نے آموزش کو سرفہرست رکھا ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ سکولوں کی اسیسمنٹ کے دوران یہ  بات سامنے آئی کہ سکولوں میں سائنس، ریاضی، انگلش کے استادوں کی کمی ہے۔ اگر یہ موجود نہیں ہوں گے تو بچے کس طرح ان مضامین میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ 

 خالق سمجھتے ہیں کہ اس پانچ سالہ منصوبے میں انہوں نے بلوچستان میں تعلیم کے مسائل کی نشاندہی کرکے اس کا حل بھی بتادیا ہے۔

  سیکٹر پلان کے دستاویزات کے مطابق: ’بلوچستان میں 2018 میں  ہونے والے سروےمیں کہا گیا کہ بچیوں میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد 20 فیصد، انگریزی 15اور ریاضی جاننے  والوں کی تعداد 26 فیصد ہے۔‘

اس طرح اگر لڑکوں کا جائزہ لیا جائے تو اردو پڑھنے والوں کی تعداد 31 فیصد، انگریزی 26، اور ریاضی 34 فیصد ہے۔ 

محکمہ ثانوی تعلیم کی 2018۔19 کے اعداد وشمارکے مطابق: ’بلوچستان میں لڑکوں کے 8394 اور لڑکیوں کے 3140 سکول ہیں جن میں کو ایجوکیشن کے 684 سکول ہیں۔ جب کہ مڈل سکول لڑکوں کے872 لڑکیوں کے 645 اور 2 کو ایجوکیشن کے مڈل سکول ہیں۔‘ 

 صوبے میں لڑکوں کے ہائی سکولز کی تعداد 720، لڑکیوں کے 403 ہائرسکینڈری سکول، لڑکوں کے 69، لڑکیوں کے 50 ہیں۔ ڈگری کالجز لڑکوں کے 30، لڑکیوں کے 17، انٹرمیڈیٹ کالجز لڑکوں کے 56 اور لڑکیوں کے 32 ہیں۔  

پاکستان ملٹی ڈائمینشل پاورٹی انڈیکس 2016 کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں خواندگی کی شرح 71 فیصد ہے۔ 

 صوبائی وزیر تعلیم نصیب اللہ مری نے سیکٹر پلان کے افتتاح کے موقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ بلوچستان میں تعلیمی شعبہ پسماندگی سے دوچا ر ہے۔ جس کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔  

چیف پلاننگ آفیسر نے بتایا کہ گزشتہ سیکٹر پلان کی طرح یہ بھی حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوگا۔ اس میں فنی تربیت کے لیے بھی منصوبے رکھے گئے ہیں اور صوبے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین کے مطابق: ’تین لاکھ 24 ہزار 280 رجسٹرڈ موجود ہیں۔ جن میں بہت سے نان رجسٹرڈ بھی موجود ہیں۔ 

 سوسائٹی فار کمیونیٹی ایجوکیشن بلوچستان کے سروے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت افغان مہاجرین کے 6 سے 18 سال کی عمر کے 65 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔  

اس میں مزید کہا گیا کہ پانچ سالہ منصوبے میں افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے سکولوں کی حالت زار بہتر بنانا، پشتون اور دری زبان میں درسی کتب کی فراہمی اور کمیونٹی موبلائزیشن کے ذریعے بچیوں کی تعلیم پر کام کیا جائے گا۔ 

سرکاری سکول کے سینیئراستاد کریم بخش جتک سے جب پانچ سالہ منصوبے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کسی بھی منصوبے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے استاد کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھ سکے۔ 

 کریم بخش جتک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بنیادی طور پر ضروری ہے کہ اساتذہ کو بلاتفریق تربیت دی جائے اور یہ اسی طرح ہے کہ جب تک اسے آگاہی نہیں ہوگی تو بچوں کو کیا پڑھائے گا۔‘

انہوں نے بتایا: ’چونکہ تعلیم کا محور بچہ ہے تو اس کےلیے ضروری ہے  کہ ہم جان لیں کہ یہ بچہ کس ماحول اور فیملی  سے تعلق رکھتا ہے۔ اب میں نے ایسے بچے بھی دیکھے ہیں جو صبح گھر سے ناشتہ کرکے نہیں آتے اور بعض تو اسمبلی کے دوران گرجاتے تھے۔‘

کریم بخش نے بتایا کہ جب تک ہم کسی بچے کے فیملی بیک گراؤںڈ سے واقفیت حاصل نہیں کریں گے اس کو اپنے سانچے میں ڈھالنا مشکل ہوگا۔ 

انہوں نے بتایا کہ دوسرا بڑا مسئلہ جس کا اساتذہ کو سامنا رہتا ہے وہ درسی سامان کا ہے۔ جس میں چاک، بورڈ وغیرہ تو مل جاتے ہیں لیکن دوسری اہم چیزیں میسر نہیں ہیں۔  

کریم کہتے  ہیں: ’اگر ہم کسی بچے کو پڑھارہے ہیں کہ یہ بادشاہی مسجد ہے، یہ اتنی بڑی ہے اور اس کے اتنے دروازے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو کوئی ویڈیو یا تصویر دکھائی جائے تاکہ یہ چیز اس کے دماغ میں نقش ہوجائیں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ اسی طرح اگر ہم کسی بچے کو پڑھارہے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا 44 فیصد ہے۔ اب اگر استاد کے پاس نقشہ ہی نہیں تو وہ کس طرح بچے کو سمجھا سکتا ہے کہ بلوچستان کہاں  اور کتنا بڑا ہے۔ 

 کریم بخش کہتے ہیں کہ جب ہم کسی بچے کو ریاضی پڑھارہے ہیں تو ہمارے پاس کم از کم جیومیٹری ہونی چاہیے تاکہ بچے کو اشکال کی سمجھ دے سکیں اگر یہ سامان میسر نہیں ہوگا تو تعلیم کا نتیجہ بھی وہی ہوگا جو ہمیں نظر آرہا ہے۔ 

 انہوں نے بتایا کہ نصاب کی تبدیلی تو ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں استادوں کو اسی طرح تربیت دینے کا فقدان ہے۔ جس کی انتہائی ضرورت ہے تاکہ وہ نہ صرف خود سمجھیں اور بچوں کو بھی سمجھا سکیں۔ 

کریم بخش کہتے ہیں کہ اس وقت ہماری صورتحال یہ ہےکہ مقصد سلیبس پورا کرنے کے گرد گھومتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر کلاس میں تمام بچے ذہین ہوں اور تعداد بھی زیادہ ہو تو کس طرح اس بچے پر توجہ دے پائیں گے جو کند ذہن اور جسے دوتین بار پڑھانے کے بعد سمجھ آتی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان