بھارت حراستی قانون کا کشمیر میں ناجائز استعمال کر رہا ہے: ایمنسٹی

پبلک سیفٹی ایکٹ ایک غیرانسانی قانون ہے جس کے تحت بچے، معذور افراد اور بوڑھے لوگ بھی حراست میں لیے جا سکتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس قانون کو فوری کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔

سری نگر میں ایک ناکے پر تلاشی کا منظر ( اے ایف پی)

انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کشمیر میں بغیر مقدمہ چلائے سزا دینے کے ایک خصوصی قانون کا ’اندھا دھند‘ استعمال کر رہی ہے جس کی وجہ سے شہریوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ ایک ’لا قانونی قانون‘ ہے جس کے تحت بچے، معذور افراد اور بوڑھے لوگ بھی حراست میں لیے جا سکتے ہیں۔ ادارے نے کہا کہ اس قانون کو فوری کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔

بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ اکبر پٹیل نے کہا: ’ریاست اور شہریوں کے درمیان تنازعات کا سبب بننے والا یہ قانون فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔‘

بھارت ایک عرصے سے اس 41 برس پرانے قانون کا دفاع یہ کہہ کہ کر رہا ہے کہ یہ مسلم آبادی والے علاقوں میں امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔ 80 کی دہائی سے کشمیر میں بھارتی فوجوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔

اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چیف سیکرٹری بی وی آر سبرامنیم نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا: ’ہمارے پاس باقاعدہ ایک عدالتی نظام ہے جہاں مکمل چیک اینڈ بیلنس موجود ہے۔‘

بھارت ہمیشہ اپنے حریف ملک پاکستان پر الزامات لگاتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے والوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔

 پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے لیکن اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ’بھارتی افواج کے مظالم‘ کے خلاف وہ کشمیری عوام کے ساتھ  ہے۔

اس قانون کے مطابق ’کسی قسم کی ریاست مخالف سرگرمی‘ میں ملوث ہونے کی سزا دو سال قید تک ہو سکتی ہے۔   

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ قانون بین الاقوامی طور پر طے شدہ انسانی حقوق کے قوانین کے خلاف ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدھ کو سری نگر میں پولیس نے ایمنسٹی حکام کو یہ رپورٹ جاری کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے نقص امن کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ 

اس سے پہلے جون 2018 میں بھی مذکورہ قانون کے غیرانسانی ہونے پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کو بھارت ’مکمل طور پر غیر تصدیق شدہ حقائق کا پلندہ‘ کہہ کر مسترد کر چکا ہے۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ نئی رپورٹ 2012 سے 2018 کے درمیان اٹھائے جانے والے 210 افراد کے مقدمات کا احاطہ کرتی ہے۔

پی ایس اے نامی یہ قانون بچوں کو حراست میں لینے کی مخالفت کرتا ہے لیکن رپورٹ میں ایسے واقعات کا ذکر بھی ہے۔

ایمنسٹی کے مطابق: ’پولیس بھی اس قانون کا استعمال اسی لیے کرتی ہے تاکہ وہ محفوظ قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے ایسی کارروائیاں کر سکے۔ عام طور پر اس قانون کا استعمال گرفتار شدگان کی رہائی سے پہلے ان کی گرفتاری کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘ 

اس رپورٹ میں71 ایسے کیس ہیں جن میں رہائی سے پہلے ہی حکومت کی طرف سے دوبارہ گرفتاری کے احکامات جاری ہوتے رہے، وہ سب اسی قانون کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ 

ایمنسٹی کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک علیحدگی پسند لیڈر مسرت عالم بھٹ بغیر کسی جرم یا الزام کےاسی قانون کے تحت  گذشتہ 20 برس سے حراست میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا