طالبان کی پچھلی حکومت کے دوران ایک مرتبہ جب افغان وزیر خارجہ وکیل متوکل پاکستان آئے تو ان سے تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔
پاکستان افغانستان کے دیرینہ معاملے ڈیورنڈ لائن پر بات کرنا تو لازم تھا۔ متکل تحمل مزاج، کم گو لیکن سمجھ بوجھ کر بات کرنے والوں میں سے تھے۔ ویسے بھی بات اپنی قیادت کی سوچ سے ہٹ کر کرنا تو ممکن ہی نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کوئی منطق تھی۔ پاکستان دنیا کے تین ممالک میں سے ایک تھا، جس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن بہر حال ملکی اور عوام کے مفادات پہلے آنے چاہییں اور اس کا مظاہرہ افغان وزیر نے کر دکھایا۔
جب ہماری گفتگو ڈیورنڈ لائن یعنی پاکستان افغان سرحد پر شروع ہوئی تو جواب کچھ یوں تھا: ’بس ہم سب ایک ہی ہیں سرحد وغیرہ چھوڑیں، یہ تو ہر افغان حکومت کا 1947 سے جواب رہا ہے، حالانکہ سرحد تو سب نے، ساری دنیا نے مانی ہے، پاسپورٹ اور ویزا کا استعمال دونوں طرف سے اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔‘
لیکن پھر بھی سرحد سے جڑے کچھ اہم معاملات ان صدیوں سے مقیم آبادیوں پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں اور نومبر کے بعد افغانستان کی طرف سے باڑ کے معاملات میں کشیدگی کی یہی وجہ تھی۔
گڑبڑ تین مقامات پر پیش آئی جو بہرحال جھڑپ میں تبدیل نہیں ہوئی۔ نمروز اور قندوز کے سرحد پر افغانستان کی طرف سے لگی ہوئی باڑ کو اکھاڑا گیا یا کوشش کی گئی۔
پاکستان کی طرف سے جوابی فوجی عمل کی شاید اجازت نہ تھی۔ ننگرہار میں بھی جھڑپ کی شروعات ہوئی۔ افغان انٹیلی جنس این ڈی یس کے ننگرہار کے چیف ڈاکٹر بشیر نے ذاتی طور پر افغان فوجیوں کی سربراہی کرتے ہوئے گوشتہ کے مقام پر سرحد پار سے پاکستانی افواج کے جوانوں کو لڑائی چھیڑنے کی دھمکیاں دیں اور تلخی سے پیش آئے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اس موقع پر ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت کو مانتے ہوئے ہی افغان اہلکار پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی شکایت میں وزن ڈال رہے تھے۔
یہ تو سرحد کی بات تھی، لیکن کابل میں طالبان قیادت کے بیانات ایک زیادہ پیچیدہ اور گہری سوچ پر مبنی ایک باقاعدہ حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔ طالبان حکومت کے عبوری وزیر اطلاعات نے سرحدی باڑ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کے معاملات طے ہونا باقی ہیں۔ اس وقت باڑ کا لگانا گاؤں اور خاندانوں کے درمیان تقسیم کا باعث اور لوگوں کی تکلیف کی وجہ بنا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے مختلف عہدیداروں نے میڈیا پر اپنی حکومت کے مختلف موقف دیے۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے پاکستان کے باڑ لگانے پر تنقید کی اور اس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا باڑ لگانا ہی غلط تھا۔ اب بات چیت کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور افغانستان کی ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ہمیشہ خبروں کی زینت بنتا ہے۔ اس مرتبہ تو خاص طور پر سوشل میڈیا میں بہت بحث مباحثہ ہوا۔ کابل سے اہم عہدیداروں کے کچھ اشتعال انگیز بیانات سے بھی میڈیا میں کشیدگی کا ماحول بنا۔
اس کو اسلام آباد سے کوئی ہوا نہیں ملی اور معاملات کچھ ٹھنڈے پڑے۔ پاکستان کی حکومت نے باڑ کے معاملے پر بہرحال ایک مختلف زاویے سے بات کی ہے۔ پاکستان میں اس پر تین وضاحتیں دی گئی ہیں۔ سب سے پہلے وزیرخارجہ نے پریس کانفرنس میں بیان دیا کہ افغانستان کے ساتھ تمام مسائل بات چیت سے حل ہوں گے۔ انہوں نے باڑ اکھاڑنے پر کابل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔
کچھ اشارہ دہشت گرد اور پاکستانی طالبان عناصر کی طرف اور کچھ منشیات کے سمگلروں کی طرف کیا۔ یہ کہا کہ یہ اپنی آمد و رفت کے راستے کھلا رکھنا چاہتے ہیں اور پھر کچھ پاکستان اور کابل کے مختلف نقشوں کا بھی ذکر ہوا۔
معاملات اب سنبھل گئے ہیں اور اب خاموشی سے اس اہم معاملے پر بھی بات چیت جاری ہے۔ کابل میں باڑ سے اٹھنے والے مسائل پر خاموش کوئی حکومت نہیں رہ سکتی۔ ایک طرف خاندان اور عزیز ہیں اور دوسری طرف روزی کمانے کے معاملات بھی بگڑتے ہیں اور پھر کہیں سرحد کی لکیر پر بھی اسلام آباد اور کابل کی مختلف رائے ہے۔
اب ان تمام معاملات پر ایک حقیقت پسندانہ اور دور اندیشی سے بات چیت کا دور شروع ہو گیا ہے۔ سرحد تو ہے ہی اور باڑ بنانا پاکستان کا قانونی حق ہے اور افغانستان کا راہداری کے معاملے کو اٹھانا اور پاکستان کا باڑ میں راستے نکالے رکھنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ دونوں ممالک کا تسلیم شدہ نقشوں کے استعمال سے امن پسندی اور جھگڑے سے عاری باڑ کے معاملے پر آگے بڑھنا ہی دونوں کے عوام، ریاست اور سکیورٹی کے لیے لازمی ہے۔
بظاہر دونوں اسی ڈگر پر آگے بڑھنے پر راضی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔