ہماری سیاست میں ساس بھی کبھی بہو تھی!

آزادی صحافت کو پاکستان کے اپنے سیاسی تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے۔ ہم نے تمام صحافت کو ڈھیل اور ڈیل تک محدود کر دیا ہے۔ اس دوران گورننس کے ایشوز کو جیسے بھول ہی گئے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کرکٹر سے سیاست دان بننے والے عمران خان سے 29 نومبر 2007 کو لاہور میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے پر مصافحہ کر رہے ہیں (اے ایف پی )

تاریخ کا پہیہ پیچھے گھما کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کیوں مرزاغالب نے فرمایا تھا:

 یاد ماضی عذاب ہے یارب

 چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

 ویسے اس سے برصغیر پاک وہند کے مزاج کا بھی پتا چلتا ہے کہ بس میں ہو تو اپنی تاریخ کے پنوں کو نذر آتش کر دیں۔

اس وقت ملک میں کسی بھی صحافی کی تحریر اٹھا کر دیکھ لیں تو اس پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے سورما چھائے ہوئے ہیں۔ دونوں دھڑے موت کے کنوئیں کی طرح ٹوئٹر، سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سرکس میں انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی کنوئیں کے اندر گھما گھما کر شائقین کی داد سمیٹ رہے ہیں۔

شائقین کو بھی معلوم نہیں کہ حقیقت کنوئیں سے باہر ہے اور وہاں نظر نہ پڑے اس لیے میڈیا کے کنوئیں میں ان کو گھیر کے رکھا گیا ہے۔ یقین مانیے کہ جب کھیل ختم ہوا تو شائقین شاید اسی کنوئیں میں ہی گریں۔

پاکستان فوج کے ترجمان نے درست کہا کہ میڈیا ڈیل اور ڈھیل کی خبروں سے نکلے۔ ویسے دیکھا جائے تو خود ووٹ کو عزت دو والے دھڑے سے خوشی خوشی ڈیل کی خوش خبریاں دینے پر انسان تاریخ میں جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

جنرل جیلانی کی دریافت اور مرحوم جنرل ضیا کی شفقت تلے سیاسی سفر شروع کرنے والے میاں نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم رہے۔ میڈیا کے ساتھ ان کے پہلے دو ادوار میں جو کچھ ہوا وہ تو سب پر عیاں ہے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو مرحوم کی کردار کشی کا ذکر نہ کیا جاتا اگر وہ ’میثاق جمہوریت‘ سے کچھ سیکھتے اور پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف عدالت نہ جاتے۔

ڈیل کر کے آنا جانا میاں صاحب کی وہ تاریخ ہے کہ جو مٹانے سے مٹ نہیں جائے گی۔ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہے، ان کے دور میں بھی کہا جاتا رہا۔ قریبی ٹیم کو نوازنا میاں صاحب کا بھی وطیرہ رہا ہے۔ عدلیہ کے ساتھ جو کیا اس کی تو ویڈوز تک ریکارڈ پر موجود ہیں۔ مالیاتی سکینڈلز کی بھرمار رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے خلاف کمزور کیسز ان کو ہٹانے کے لیے استعمال کیے گئے۔

اختلاف کے لیے عدم برداشت اور نیب کی چیرہ دستیوں، فون ٹیپس میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کے وہ صفحات ہیں کہ جس کو پھاڑنے پر بھی خالی صفحات پر ان تحریروں کے نشان رہیں گے۔ ن لیگ کے کئی وفادار ساتھیوں نے پارٹی میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔

یہاں چوہدری نثار کی ایک مثال موجود ہے گو کہ خود ان کی پارٹی سے علیحدگی پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔ میاں صاحب جنرل پرویز مشرف کو کس طرح لائے اور اختلافات کے بعد بڑے میاں صاحب نے دونوں کو کس طرح بھائی بھائی بنا دیا اس کا جواب جنرل مشرف نے یوں دیا کہ دنیا کی نظروں میں پہل کا بوجھ میاں نواز شریف کے پلڑے میں ڈالا اور میاں نواز شریف کو ڈیل کے تحت رہا کر دیا۔

آج بھی جب بادل گہرے ہوئے تو میاں نواز شریف نے گرجنا برسنا شروع کیا۔ لیکن جیسے ہی بادلوں کی اوٹ سے سورج کی کرن پھوٹی تو فوراً خاموشی اختیار کی۔ پنجاب میں پولیس گردی کی سرپرستی ہو یا پارٹی پر خاندانی بالادستی کہاں سے آپ کو اس میں چے گویرا نظر آیا۔

چند ساتھیوں کا یہ ماننا ہے کہ میاں صاحب بدل چکے ہیں، انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ لیکن کیا کریں کہ یہ دیکھنے کے لیے انہیں چوتھی بار وزیراعظم ہوتے دیکھنا پڑے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی کہ وہ ویسا کچھ نہیں کریں گے جو انہوں نے پہلے کیا۔

تیسری بار جب وہ وزیراعظم بنے تو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دوران انہوں نے دہشت گردی کے شکار صوبے کو تحریک انصاف کی بدولت اپنے سیاسی نقشے سے نکال دیا۔ گو کہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے انہیں وارننگ دی تھی کہ اگر تحریک انصاف کو روکا نہیں گیا تو یہ جماعت مرکز میں انہی کے گلے پڑے گی۔ لیکن میاں صاحب نے خیبر پختونخوا کو مکمل نظر انداز کیے رکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرکز میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بالآخر مولانا فضل الرحمن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ اب تحریک انصاف کی قیادت وہی کر رہی ہے جو ن لیگ کی قیادت کرتی رہی۔ وزیر اعظم عمران خان پر وہی الزامات لگ رہے ہیں جو کہ وزیراعظم میاں نواز شریف پر لگتے رہے۔

اس لیے آزادی صحافت کو پاکستان کے اپنے سیاسی تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے۔ ہم نے تمام صحافت کو ڈھیل اور ڈیل تک محدود کر دیا ہے۔ اس دوران گورننس کے ایشوز کو جیسے بھول ہی گئے ہیں۔

ہمارے پڑوس میں افغانستان میں ایک ہولناک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ مثبت صحافت کا ہنی مون تو کب کا ختم ہو چکا ہے لیکن مہذب معاشروں کی طرح ہم کب تعمیری صحافت کا آغاز کریں گے۔

جہاں تک دونوں دھڑوں کی بات ہے وہ تو ایسے ہی رہیں گے۔ وہی عسکری حلقوں کی حمایت، مخالفین کو دیوار سے لگانے کی روایت اور خوش آمدیوں کی سرایت اقتدار کے ایوانوں میں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔

اس پر بات ہو سکتی ہے کہ کس کی شدت زیادہ ہے لیکن حکمرانی کے بنیادی اجزا وہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی کہانی انہی سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوتی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی ان سے قطعاً مختلف نہیں ہیں۔ آج وزیراعظم کی طاقت کے ایوانوں میں وہی حیثیت ہے جو کبھی میاں نواز شریف کی تھی۔

دونوں ایک ہی گھرانے سے پل کر جوان ہوئے۔ اقتدار کے ایک ہی گھر سے بیاہے گئے ہیں۔ چونکہ میاں نواز شریف کا تجربہ زیادہ ہے تو ان کو گھر اور گھرانے کی پہچان زیادہ ہے۔اس لیے وزیراعظم کو البتہ یہ بات دھیان میں رکھنی ہوگی کہ میاں صاحب کی وجہ سے ہی وہ اس گھر میں آئے ہیں۔ ان سے سینیئر ہیں اور ظاہری بات ہے کہ تجربہ بھی زیادہ ہے۔

لیکن شاید وزیراعظم کو اس بات کا احساس ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ