وزیرستان: غگ کرنے والا نوجوان بھتیجے سمیت قتل

جنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم ورسک کے رہائشی مقتول عمر خان نے 2020 میں وانا سب ڈویژن کے علاقے بومائی کی ایک 16 سالہ لڑکی کے گھر جاکر دروازے کے باہر فائرنگ کرکے غگ کرکے کہا تھا کہ وہ اس کی شادی کہیں اور نہیں ہونے دے گا۔

تھانہ اعظم ورسک پولیس نے دہرے قتل کا مقدمہ درج کرلیا جبکہ ملزمان کی تلاش تاحال جاری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم ورسک میں رواں ہفتے ایک نوجوان کو بھتیجے سمیت مخالفین نے غگ رواج کے نتیجے میں اس وقت قتل کردیا جب وہ گھر سے باہر نکل رہے تھے۔

تھانہ اعظم ورسک پولیس نے دہرے قتل کا مقدمہ درج کرلیا جبکہ ملزمان کی تلاش تاحال جاری ہے۔

تھانہ اعظمم ورسک سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پولیس معمول کے گشت پر تھی کہ انہیں موبائل فون پر دو افراد کو قتل کیے جانے کی اطلاع ملی۔

جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ مقتولین عمر خان اور یوسف خان تھے، جو غلام خیل قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ 

مقتولین کے ورثا نے وہاں زبانی طور پر پولیس کو چند افراد کے نام لے کر بتایا کہ دونوں کو انہوں نے قتل کیا ہے، تاہم ورثا نے قبائلی رواج کی وجہ سے اس واقعے کی رپورٹ یا پوسٹ مارٹم نہیں کروایا۔

پولیس کے مطابق چونکہ جرم قابل دست اندازی ہے لہذا ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔

جنوبی وزیرستان کے ایک پولیس افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شکایت کنندہ خاندان کو چاہیے تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے ملزم کو قانون کے حوالے کر دیتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم عمر کے ساتھ قتل ہونے والا ان کا بھتیجا یوسف بے قصور مارا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان موقع سے فرار ہوگئے ہیں اور ابھی تک انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

واقعہ کیا ہے؟

2020  میں مقتول عمر خان کے خلاف اس وقت ایک مقدمہ درج کیا گیا، جب انہوں نے وانا سب ڈویژن کے علاقے بومائی کی ایک 16 سالہ لڑکی کے گھر جاکر دروازے کے باہر فائرنگ کر کے کہا کہ ’اس لڑکی  پر میرا غگ ہے‘ اور وہ اس کی شادی کہیں اور نہیں ہونے دے گا اور اگر معاملہ اس کی مرضی کے برعکس ہوا تو وہ ’سب کو قتل کر دے گا۔‘

اس واقعے کے بعد لڑکی کے والد اپنی بیٹی کے ہمراہ تھانے گئے اور ایف آئی آر درج کرواتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ ان کی بیٹی کا رشتہ پہلے ہی ان کے بھتیجے کے ساتھ طے ہوچکا ہے۔

انہوں نے ایف آئی آر میں یہ بھی لکھوایا کہ ان کی بیٹی اپنے چچازاد کے ساتھ رشتے پر خوش ہے اور وہ کسی طور پر عمر خان کے ساتھ شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے پولیس سے عمر خان پر اپنے مکان کے دروازے پر ڈرانے دھمکانے کی خاطر فائرنگ کرنے اور بیٹی پر رشتے کا غگ کرنے کے خلاف غگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی۔

ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا، جس نے جج کے سامنے اقبال جرم کیا۔

دو سال جیل میں گزارنے کے بعد عمر کو ڈیرہ اسماعیل خان ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تاہم پولیس کے مطابق، رہا ہونے کے بعد بھی عمر خان اپنی ضد پر قائم رہے اور لڑکی کے خاندان کو دھمکیاں دیتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2020 میں بھی بعض علاقہ مکینوں نے عمر خان کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے علاقے کے لوگوں سے عمر خان کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کی تھی۔

اس معاملے پر ایس ایچ او ذبیح اللہ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں لکھا تھا: ’ہم اس طرح کی بدمعاشی یا زبردستی کی اجازت نہیں دیں گے۔ کان کھول کر سن لیں کہ کسی کو علاقہ اعظم ورسک میں حکومتی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

قبائلی علاقوں میں عموماً لڑکیوں کی شادی زیادہ تر چھوٹی عمر میں ہی کردی جاتی ہے اور اگر کسی لڑکی کے ساتھ غگ جیسا معاملہ ہوجائے تو گھر کے بڑے اس کی جلد از جلد شادی کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ پشتون معاشرے میں اگر کسی غیر شادی شدہ لڑکی کا کسی لڑکے کے ساتھ نام آجائے تو اس کے لیے جہاں رشتے آنا بند ہوجاتے ہیں، وہیں ایسی لڑکی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

غگ رواج پر ڈراما ’سنگ ماہ‘ 

حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈراما ’سنگ ماہ‘ میں بھی اسی رواج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاہم پہلی دو اقساط میں ڈرامے کے مصنف  مصطفیٰ آفریدی نے  ناطرین کو کنفیوز رکھتے ہوئے تاحال ’غگ‘ اور ’محبت‘ کا فرق واضح نہیں کیا ہے۔

جہاں ایک جانب ایک لڑکے  سبز علی کو غگ پر جرگے میں سزا سنائی جاتی ہے وہیں اسی جرگے کے سربراہ (اداکار نعمان اعجاز) سزا کے خوف سے گھبرا جانے والے سبز علی کو ’بزدل عاشق‘ کا نام دیتے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس رسم پر اس ڈرامے سے اس کے خاتمے کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ اس چینل کے ڈرامے بعد میں پشتو زبان میں ترجمہ کر کے اس کے پشتو چینل پر بھی چلائے جاتے ہیں۔

غگ کے پیچھے اسباب چاہے محبت یا بدمعاشی ہو، بہرحال اس کو پشتون معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اب کافی ناپید ہوگیا ہے مگر پھر بھی یہ رواج کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

2013 میں خیبر پختونخوا حکومت کی کوششوں سے غگ ایکٹ کا قانون پاس کیا گیا، جس میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کے لیے سات سال قید، پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں تجویز کی گئیں۔ مزید برآں اس قانون کے تحت پولیس کو اس طرح کے کیسز میں کسی وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ موقع پر ہی ایسے افراد کو گرفتار کرسکتی ہے۔

غیر سرکاری ادارے بلیو وینز سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ثنا احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون تو بن گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اس کے قواعد (رولز آف بزنس) بھی نہیں بنائے گئے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہی وجہ ہے کہ غگ جیسا بدترین رواج جو کہ ایک زبردستی ہے، معاشرے میں موجود ہے بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینے والے بھی۔ اگر اس قانون کے حوالے سے شعور پھیلایا جاتا اور اس کا صحیح معنوں میں نفاذ ہوتا تو لوگ خود انصاف کرنے نہ بیٹھے ہوتے۔ ‘

ثنا احمد نے کہا کہ ہر سال مختلف قسم کے تشدد کے اعداد وشمار کی رپورٹس آتی ہیں لیکن غگ کے حوالے سے کوئی ڈیٹا سامنے نہیں آتا، جو کہ سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ تشدد کی جو قسم زیادہ خطرناک یا عام ہے، اس کو ختم کرنے کے لیے اپنے وسائل استعمال میں لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شعور کو فروغ دے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان