کیٹی بندر میں الٹی کشتیوں کے 30 ماہی گیر محفوظ، آٹھ کی تلاش جاری  

فشر فوک فورم کے ترجمان کمال شاہ کے مطابق ’تیز ہوائیں چلنے اور اونچی لہروں کے باعث لانچیں چٹانوں سے ٹکرائیں اور تباہ ہو گئیں جس کے باعث یہ حادثہ پیش آیا تھا۔‘

محکمہ موسمیات سندھ کی جانب سے گزشتہ روز تیز ہواؤں کی پیش گوئی کی گئی تھی اور ساتھ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تیز گرد آلود ہوائیں سمندر میں طغیانی کا باعث بن سکتی ہیں (تصویر: ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان)

کراچی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر فاصلے پر واقع کیٹی بندر پر دریائے سندھ میں گذشتہ رات سے اب تک تیز ہواؤں اور طوفانی لہروں کی وجہ سے تباہ ہونے والے دو کشتیوں بحرالحسن اور الصدیق کے 30 ملاحوں کے محفوظ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جب کہ آٹھ کی تلاش جاری ہے۔ 

ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشرفوک فورم کے رہنما گلاب شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گزشتہ شب تیز ہواؤں کے باعث کیٹی بندر کے قریب الٹنے والی دو کشتیوں میں سوار 38 ماہی گیروں میں سے 30 کو بچالیا گیا، جب کہ آٹھ ماہی گیروں کی تاحال تلاش جاری ہے۔  

گزشتہ رات کراچی سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ٹھٹہ ضلع میں دریائے سندھ پر واقع آخری شہر کیٹی بندر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کانئیر کریک میں معمول کا سفر کرنے والی کشتی ’بحرالحسن‘الٹ گئی تھی۔

فشر فوک فورم کے ترجمان کمال شاہ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’تیز ہوائیں چلنے اور اونچی لہروں کے باعث لانچیں چٹانوں سے ٹکرائیں اور تباہ ہو گئیں جس کے باعث یہ حادثہ پیش آیا تھا۔‘

کشتی میں سوار تمام 22 ماہی گیروں کو رات ہی کو بچا لیا گیا تھا۔ جبکہ کیٹی بندر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ’الصدیق‘ نامی ماہی گیر کشتی ڈوب گئی، جس میں 16 ماہی گیر سوار تھے۔ جن میں سے آٹھ کو بچا لیا گیا جب کہ آٹھ ماہی گیروں کی تاحال تلاش جاری ہے۔  

 پاکستان فشرفوک فورم کے رہنما گلاب شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’دونوں کشتیاں معمول کی ماہی گیری کے لیے کئی دنوں سے دریائے سندھ کے کریک میں تھیں۔ جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ گزشتہ شب کراچی سے تعلق رکھنے والی ’بحرالحسن‘ نامی کشتی الٹنے کے بعد ریسکیو نے جائے وقوع پر پہنچ کر کشتی میں سوار تمام 22 ماہی گیروں کو بچا لیا ۔ یہ ماہی گیر ابھی تک کیٹی بندر نہیں پہنچے ہیں کیوں کہ الٹنے کے باعث ان کی کشتی کو نقصان پہنچا تھا۔ ان میں پانچ ماہی گیروں کو چھوٹی کشتی پر کیٹی بندر لایا گیا۔‘  

جب ان سے پوچھا گیا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے تیز ہواؤں کی پیش گوئی کے باوجود یہ ماہی گیر گہرے سمندر کیوں گئے، تو جواب میں گلاب شاہ نے کہا کہ دونوں کشتیاں دو ہفتے پہلے گئی تھیں۔ ’عام طور ماہی گیر 10 یا 15 دن کے لیے کھلے سمندر مین جاتے ہیں، وہاں مچھلی کے شکار کے بعد جب اچھی خاصی مچھلی ہاتھ آجاتی تو پھر واپس آتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ محکمہ موسمیات سندھ کی جانب سے گزشتہ روز تیز ہواؤں کی پیش گوئی کی گئی تھی اور ساتھ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تیز گرد آلود ہوائیں سمندر میں طغیانی کا باعث بن سکتی ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق شمالی بحیرہ عرب میں لہریں سوا سے ڈھائی میٹر بلند ہو رہی ہیں، کبھی کبھی سمندر میں لہریں چھ میٹر تک بھی بلند ہوسکتی ہیں۔ محکمہ موسمیات نے ماہی گیروں کو کھلے سمندر نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔  

دوسری جانب رابطہ کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’الٹنے والی دونوں کشتیوں میں سوار 30 ماہی گیروں کو بچالیا گیا ہے۔ جب کہ لاپتہ آٹھ ماہی گیروں کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیموں کو روانہ کردیا گیا ہے۔ کیٹی بندر کے پاس دریائے سندھ کے کریکس میں لاتعداد چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں، عام طور ایسے واقعات میں ماہی گیر ان جزائر پر چلے جاتے ہیں، اب انھیں تلاش کرکے واپس لانا ہے۔‘

’وزیر اعلی سندھ کی جانب سے ٹھٹہ ضلع کی انتظامیہ سے پوچھ گچھ جاری ہے کہ جب محکمہ موسمیات نے تیز ہواؤں کی پیش گوئی کی تھی تو ماہی گیروں کو اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان