گوادر: شراب خانوں کی بندش کا حکومتی فیصلہ معطل

گوادر میں شراب خانوں کی بندش کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے حکومتی فیصلہ معطل کرکے شراب خانوں کے مالکان کو کام جاری رکھنے دیا ہے۔

درخواست پر سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے ووکیشنل جج نذیر احمد لانگو نے کی، جنہوں نے حکم جاری کیا کہ اس حوالے سے 15 دسمبر کو جاری ہونے والا محکمہ ایکسائز کا آرڈر منسوخ کیا جاتا ہے (تصویر: بلوچستان ہائی کورٹ ویب سائٹ)

بلوچستان ہائی کورٹ نے گوادر میں عوامی احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے شراب خانوں کو بند کرنے کے فیصلے کو معطل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

حکومت کے فیصلے کے خلاف دائر ایک پٹیشن کی سماعت میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ووکیشنل جج نذیر احمد لانگو نے جمعرات کو حکومتی فیصلے کو معطل کرنے کا حکام دیتے ہوئے کہا کہ شراب خانوں کے مالک اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ گوادر میں گذشتہ سال مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں ایک ماہ تک جاری رہنے والے عوامی احتجاج ’حق دو بلوچستان کو‘ میں شرکا کے دیگر مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ شہر میں شراب خانوں کو بند کیا جائے۔

حکومتی وفد، جس میں اکبر آسکانی، لالہ رشید اور ظہور بلیدی شامل تھے، نے دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کیے جس کے بعد حکومت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے ان شراب خانوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم اس فیصلے کے خلاف شراب خانے کے مالک سنیل کمار نے امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ کے توسط سے بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن فائل کی، جس میں استدعا کی گئی کہ حکومت کا یہ اقدام درست نہیں۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ فیصلے میں حکومت نے گوادر کی اقلیتی برادری کے ساتھ زیادتی کی ہے۔

وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت میں کہا کہ حکومت نے لائسنس منسوخ اور کاروبار بند کرکے آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی کی ہے۔

درخواست گزاروں میں ڈان وائن سٹور گوادر کے لائسنس یافتہ سریش کمار، فائیوسٹار وائن سٹور گوادر سٹی کے سنیل کمار اور گوادر وائن سٹور گوادر سٹی کے دیپک کمار شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس درخواست پر سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے ووکیشنل جج نذیر احمد لانگو نے کی، جنہوں نے حکم جاری کیا کہ اس حوالے سے 15 دسمبر کو جاری ہونے والا محکمہ ایکسائز کا آرڈر منسوخ کیا جاتا ہے۔

نذیر احمد لانگو نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ صوبائی حکومت کا فیصلہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزاروں کو آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت حقوق اور حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے اور ان کے ساتھ آئین کے آرٹیکل چار جیسا سلوک کیا جائے، جس میں ان کو حقوق دینے کے ساتھ تحفظ بھی دیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ جب تک اس کیس کا مکمل فیصلہ نہیں آجاتا درخواست گزار اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ حق دو تحریک کے سربراہ شراب خانوں کے حوالے سے سخت موقف رکھتے ہیں اور وہ دھرنے کے دوران اور اس کے بعد بھی ان کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک شراب خانے کے مالک سنیل کمار سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ مصروف ہیں اور کل کسی وقت جواب دیں گے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی گوادر کے ایک رہنما ماجد سے بھی رابطہ کرکے موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے وٹس ایپ پر مسیج دیکھ کر بھی کوئی ردعمل نہیں دیا۔

گوادر میں سمندر کے راستے غیر ملکی شراب کی سمگلنگ بھی کی جاتی ہے، جس کے خلاف محکمہ ایکسائز کا عملہ وقتا فوقتاً شراب کی برآمدگی اور ملزمان کی گرفتاری کے دعویٰ کرتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان