کیا مچھلی آنکھ جھپکتی ہے؟ آخر مرغی اڑتی کیوں نہیں؟

گو کہ مرغیاں اپنے اڑنے کی صلاحیت کو زیادہ حد تک کھو چکی ہیں لیکن ان میں ابھی بھی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ دوسرے پرندوں میں موجود ہوتی ہیں اور وہ کم فاصلے تک اڑ سکتی ہیں۔

مرغیوں کو گھریلو طور پر پالے جانا اور سالوں تک منتخب نسل پروری ان کی اڑنے کی صلاحیت کے ختم ہونے کی بڑی ذمہ دار ہے(تصاویر: اے ایف پی)

ہم اس آرٹیکل میں ان سوالوں کے جواب تلاش کریں گے جن کا جواب سائنس دے سکتی ہے۔

کیا مچلی آنکھ جھپکتی ہے؟

نہیں۔ سانپوں کی طرح ان کی بھی حرکت کرنے والی پلکیں نہیں ہوتیں۔ بلکہ اس کے بجائے ان کی آنکھوں پر ایک دکھائی نہ دینے والے خول ہوتا ہے۔ مچھلیوں کی نظر بہت تیز ہوتی ہے اور وہ ایسی چیزیں بھی دیکھ سکتی ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ وہ کسی بھی مخلوق کی پہچان، ساتھی منتخب کرنے اور اپنے علاقے کے دفاع کے لیے بصری اشاروں پر انحصار کرتی ہیں۔

جب ایک بلی موٹی ہوتی ہے تو کیا اس کی مونچھیں بھی لمبی ہو جاتی ہیں؟

نہیں۔ بلی کی مونچھوں کی لمبائی اس کے جینز پر منحصر ہے۔ اگر ایک بلی موٹی ہوتی ہے تو اس کی مونچھیں اس کے حجم کے گائیڈ کے طور پر چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی بلی کی مونچھیں اسے یہ بتا رہی ہوں کہ وہ ایک تنگ جگہ سے گزر سکتی ہے تو ہو سکتا ہے وہ وہاں پھنس جائے۔

کیا چمگادڑیں بلند آواز نکالتی ہیں؟

چمگادڑیں آواز نکالتی ہیں لیکن ہمارے کان ان کو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چمگادڑیں بہت بلند آواز نکالتی ہیں جس کو الٹراساؤنڈ کہا جاتا ہے۔ ڈولفنز اور وہیلز کی طرح چمگادڑیں اپنے شکار کی تلاش اور اپنی موجودہ جگہ اور جس جگہ وہ جانا چاہتی ہوں، کے لیے آواز کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ طریقہ ایکو لوکیشن کہلاتا ہے۔ چمگادڑیں جو آواز پیدا کرتی ہیں وہ عمارتوں، درختوں، جانوروں اور دیگر اشیا سے بالکل ایک گونج کی طرح کی ٹکراتی ہے، جس کو سن کر چمگادڑیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کوئی چیز کتنی دور ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے۔

اس کا مطلب ہے چمگادڑیں اپنی آواز سن سکتی ہیں لیکن ہم نہیں۔

کیا زرافے کی شریانوں میں ایسے وال موجود ہوتے ہیں جو ان کی گردن میں گردش کرنے والے خون کو ان کے دل میں واپس آنے سے روکتے ہیں؟

نہیں۔ لیکن ایسا کسی بھی جانور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ زرافے ممالیہ جانور ہیں بالکل انسانوں کی طرح۔ جسمانی ساخت اور اندرونی اعضا کے معاملے میں تقریباً سب کچھ ہی ایک جیسا ہے(لیکن حجم الگ ہو سکتا ہے)۔ سرکولیشن کا یہ نظام پمپ(دل) پر مبنی ہے جو شریانوں میں خون کو رواں رکھتا ہے۔ یہ شریانیں خون کی باریک رگوں سے بڑی رگوں کے ذریعے جڑی ہوتی ہیں۔ شریانوں میں وال نہیں ہوتے لیکن رگوں میں ہوتے ہیں۔

جب خون دل سے نکلتا ہے تو یہ بہت زیادہ پریشر کے ساتھ چلتا ہے تو اسے ایک سمت میں سفر کو یقینی بنانے کے لیے اسے وال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رگوں میں یہ پریشر کم ہوتا ہے۔ دل کی جانب خون کے واپس آنے کو روکنے کے لیے والز کا ایک سلسلہ موجود ہوتا ہے جو اس بہاؤ کو روکتا ہے۔

کیا کتوں کے سونگھنے کی صلاحیت انسانوں سے بہتر ہے؟

یہ سوچا جاتا ہے کہ کتوں کی مخصوص خوشبو کو سونگھنے کی صلاحیت انسانوں سے لاکھوں گنا بہتر ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک کتے کا ناک ہمارے ناک کے مقابلے میں چار گنا بڑا ہوتا ہے۔ ایک انسان کے ناک میں جب 50 لاکھ ایتھموڈیل (اولفیکٹری) سیلز ہوتے ہیں تو کچھ کتوں کی ناک میں ان کی تعداد 20 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔

ایک کتے کی ناک خوشبو کو سونگھنے کے لیے بنی ہے۔ یہ بڑی اور گیلی ہوتی ہے جو کہ خوشبو کے زرات کو جمع کرنے اور تحلیل کرنے کا کام کرتی ہے۔

جب ایک کتے کو کوئی خوشبو ملتی ہے تو اس کی رال بہنے لگتی ہے۔ یہ گیلی زبان خوشبو کے مزید زرات کو اکٹھا کرنے اور تحلیل کرنے کا کام کرتی ہے۔

گریٹ وائٹ شارک کے کتنے دانت ہوتے ہیں؟

شارک کے سامنے والے دانتے ان کے پیچھے بڑے ہونے والے دانتوں سے مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایک بالغ گریٹ وائٹ شارک کے سامنے کی صف میں اوسطاً تین سے 34 دانت ہوتے ہیں۔

ہر دانت کی جگہ لینے کے لیے ایک دوسرا دانت موجود ہوتا ہے، اس لیے ایک شارک کے منہ میں 60 سے 68 دانت ہوتے ہیں جن میں سے صرف نصف ہی استعمال میں ہوتے ہیں۔

مرغیاں اڑ کیوں نہیں سکتیں؟

گو کہ مرغیاں اپنے اڑنے کی صلاحیت کو زیادہ حد تک کھو چکی ہیں لیکن ان میں ابھی بھی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ دوسرے پرندوں میں موجود ہوتی ہیں اور وہ کم فاصلے تک اڑ سکتی ہیں۔

ان کے پھیپھڑوں کے گرد ہوا دانی موجود ہوتی جو سانس لینے میں مدد فراہم کرتی ہے جب کہ ان کی ہڈیوں میں بھی ایئر کیویٹرز موجود ہوتی ہیں جو اڑنے کے لیے ان کے وزن کو کم کرتی ہیں۔

مرغیوں کو گھریلو طور پر پالے جانا اور سالوں تک منتخب نسل پروری ان کی اڑنے کی صلاحیت کے ختم ہونے کی بڑی ذمہ دار ہے۔

آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے علاقوں میں موجود انسانی آبادیوں میں 3250 قبل مسیح تک سے مرغیوں کو گھریلو طور پر ہزاروں سال تک پالا جاتا رہا ہے۔

ان کو ان کے گوشت کے معیار، ان کے سینے پر موجود سفید گوشت اور شاید اڑنے کی بری صلاحیت کی وجہ سے منتخب کیا جاتا تھا۔ صدیوں تک کیا جانے والا یہ غیر فطری انتخاب موجودہ مرغ کی صورت میں سامنے آیا ہے جو کہ اڑنے کے معاملے میں بہت برے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق