ترکی، اسرائیل میں ’حماس ارکان کی ملک بدری پہ مذاکرات‘

ترکی کے ایک اخبار حریت نے رواں ہفتے رپورٹ کیا کہ ترکی تقریباً ڈیڑھ سال سے خطے کے کئی ممالک کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں مصروف ہے جبکہ ’سب سے زیادہ شدت سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔‘

ترک صدر 15 فروری 2022 کو دبئی میں ایکسپو سے خطاب کے دوران (فائل تصویر: اے ایف پی)

ترکی کے ایک اخبار حریت نے رواں ہفتے رپورٹ کیا کہ ترکی تقریباً ڈیڑھ سال سے خطے کے کئی ممالک کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں مصروف ہے جبکہ اخبار کی رپورٹر ہاندے فرات کے مطابق ’سب سے زیادہ شدت سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں جو حماس کے ارکان کی ملک بدری‘ چاہتا ہے۔

تاحال ترک حکام کی جانب سے اس اخباری رپورٹ کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

اخبار کی رپورٹر فرات کے مطابق ترکی نے حماس کے رہنماؤں کو بتا دیا ہے کہ اس کے ’وہ ارکان جن کے پاس فوجی عہدے ہیں ترکی میں نہیں رہیں گے‘ اور ’انہیں کوئی فوجی امداد نہیں ملے گی۔‘

اسرائیل ہیوم نامی ویب سائٹ کے مطابق ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاووشولو کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان اتفاق ہو جانے کے باوجود ’ترکی فلسطینیوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا اور فلسطینی ریاست کے اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘

یاد رہے کہ ایک تلخ جھگڑے کے بعد 2018 میں اسرائیل اور ترکی نے ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک سے نکال دیا تھا اور تب سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔

تاہم انقرہ نے اسرائیل سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ مارچ کے وسط میں ترکی کا دورہ کریں گے۔ یہ سال میں اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل کے صدر کے دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایک اعلیٰ سطحی تک وفد نے رواں ہفتے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک وفد میں صدر طیب اردوغان کے خصوصی مشیر ابراہیم کلین اور نائب وزیر خارجہ سادت اونال شامل تھے۔

اسرائیلی صدارتی محل سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ترک وفد کا یہ دورہ ’اسرائیلی صدر کے ترکی کے طے شدہ دورے کی تیاریوں کا حصہ تھا۔‘

ادھر ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن ٹی آر ٹی نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی صدر کا دورہ آئندہ ماہ نو اور 10 مارچ کو متوقع ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے حماس کو دہشت گرد گروپ نامزد کر رکھا ہے ترکی نے گذشتہ برسوں میں حماس کے کئی سینیئر ارکان کی میزبانی کی ہے۔ برطانوی اخبار دا ٹیلی گراف نے 2020 میں رپورٹ کیا تھا کہ حماس کے بعض سینیئر عہدے داروں کو ترکی کی شہریت بھی دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا