مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کو سرکاری فنڈز سے ملنے والی جدید سہولیات

مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے ترجمان نے بتایا کہ سرکاری فنڈز سے بننے والی یہ ’خوبصورت ترین‘ عمارت آخری مراحل میں ہے، جس کے لیے مزید سرکاری فنڈز درکار ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں تاریخی مدرسے دارالعلوم حقانیہ کی سرکاری فنڈز سے تعمیر ہونے والی عمارت پانچ سال گزرنے کے باوجود نامکمل ہے۔

اس مدرسے میں چار ہزارسے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں اور نئی عمارت کے لیے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کُل 577 ملین روپے کے فنڈز منظور کیے تھے۔

مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے ترجمان مولانا سید محمد یوسف شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرکاری فنڈز سے تعمیر ہونے والی یہ ’خوبصورت ترین‘ عمارت آخری مراحل میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں پی ایچ ڈی کلاسز شروع ہو چکی ہیں جبکہ باقی کلاسز بھی جلد شروع ہو جائیں گی۔ اس پانچ منزلہ عمارت میں طلبہ کے لیے لیبارٹری اور کمپیوٹر لیب بھی ہوگی۔

مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ نئی عمارت سے بہت آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ’مدرسے کو اس عمارت کی بہت سخت ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ ہاسٹل بھی تیار ہو رہا ہے کیونکہ ہمارے طلبہ بہت زیادہ ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ عمارت کے تہہ خانوں میں ساڑھے 450 طلبہ رہائش پذیر ہیں اور اوپر کلاس روم بنائے گئے ہیں۔ ’اللہ سےدعا ہے کہ اس کی تکمیل جلد ازجلد ہو۔‘

مولانا یوسف نے بتایا کہ عمارت کی تعمیر کے لیے سرکاری فنڈز کی ریلیز میں تسلسل نہیں لیکن اس کے باوجود پانچ سالوں میں ’ہم نے عمارت کو یہاں تک پہنچا دیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’عمارت میں بیڈ منٹن کھیلنے کے لیے ہال بھی بنایا گیا ہے، جہاں نماز عصر کے بعد طلبہ کھیلتے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے ہم یہاں ایک بڑا میدان بنائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ سہولت مہیا کریں کیونکہ یہ مہمانان رسول ہیں اور اگر کالج اور سکول کے طلبہ کو سہولیات مہیا ہیں تو انہیں کیوں نہ ہوں۔‘

عمارت کے تعمیراتی کام کے منتظم اور مدرسے کے سابق مہتمم مولانا سمیع الحق مرحوم کے دوسرے صاحب زادے مولانا راشدالحق نے بتایا کہ عمارت کا رقبہ ایک لاکھ 31 ہزارمربع فٹ ہے، جس میں گراؤنڈ فلور پر انتظامیہ کے دفاتر اور دارلافتا اور پی ایچ ڈی لیول کی کلاسز ہوں گی۔

مولانا راشد کے بقول: ’اس عمارت میں ایک عظیم الشان لائبریری بھی ہوگی جو صوبے کی منفرد لائبریری ہو گی۔ امتحانی ہال اور طلبہ کی ورزش کے لیے جم بھی اس میں شامل ہیں۔ اس عمارت میں اکیڈمک بلاک، عربی کلاسز، کمپیوٹرلیب اورجدید فنون کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ دوسالہ منصوبہ تھا لیکن فنڈز ملنے میں تاخیر کی وجہ سے پانچ سال لگ گئے اور یہ اب بھی نامکمل ہے۔

مولانا راشد نے مزید بتایا کہ اس عمارت کے لیے 36 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جس میں سے اب تک 26 کروڑ روپے عمارت کے ڈھانچے کی تیاری پر خرچ ہوچکے ہیں، عمارت کی فنشنگ کے لیے فنڈز کی کمی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا