حقانیہ مدرسے کے مفتی کا قتل کیس مزید الجھ گیا

اکوڑہ خٹک میں قتل ہونے والے مفتی غلام حسین کے حوالے سے کئی متضاد خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

سونیا سے شادی کرنے والے 35 سالہ مفتی غلام حسین پہلے سے شادی شدہ اور پانچ بچوں کے باپ تھے (فائل فوٹو)

خیبر پختونخوا کے علاقے اکوڑہ خٹک میں سات اکتوبر کو قتل ہونے والے مفتی غلام حسین کے حوالے سے کئی متضاد خبریں سامنے آنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور اس کے پیچھے کون سے مقاصد کارفرماں ہیں؟

دینی مدرسہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے مفتی غلام حسین کے قتل سے متعلق پہلی خبر یہ سامنے آئی تھی کہ پسند کی شادی پر لڑکی کے بھائی نے نکاح پڑھوانے والے مولوی کو ہی قتل کردیا۔ تاہم مقامی تھانے نے بتایا کہ اصل معاملہ خود مفتی اور لڑکی کے درمیان تھا اور ملزم لڑکی کے بھائی نہیں بلکہ ان کے والد ہیں۔

اکوڑہ خٹک پولیس کے بعض ذرائع نے یہ بھی بتایا  کہ لڑکی کی غلام حسین سے شادی نہیں ہوئی تھی، اور یہ کہ جب والد نے دونوں کو ایک ساتھ اپنے گھر میں موجود پایا تو انہوں نے غلام حسین پر پستول سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔

معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ایف آئی ار کی ایک نقل بھی حاصل کی، جس میں مقتول کی جانب سے مدعی حزب اللہ نےابتدائی بیان میں صرف اتنا لکھوایا کہ نامعلوم افراد نے غلام حسین کے سر، بائیں ہاتھ اور منہ پر گولیاں ماریں۔

پولیس نے تفتیش کے بعد ملزم نوشاد کو گرفتار کر لیا اور کیس عدالت میں پہنچ گیا۔ 17 اکتوبر کو خبر آئی کہ ملزم کی 16 سالہ بیٹی مسمات سونیا نے اپنے والد کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ دراصل انہوں نے والد سے چھپ کر سات ماہ قبل مفتی غلام حسین سےنکاح کیا تھا، جس کے گواہ خود ان کی والدہ اور بھائی بھی تھے۔

خبر میں مزید لکھا گیا کہ سونیا نے عدالت سے بھی درخواست کی کہ انہیں سسرال کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ وہ خود کو اپنے گھر میں غیر محفوظ سمجھ رہی تھیں۔

تصدیق کے لیے جب اس کیس کے تفتیشی افسر سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے اس خبر کو غیر مصدقہ قرار دے کر کہا کہ سونیا دارالامان میں ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کی خاطر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک دستاویزجس پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی مہر اور دستخط ہیں، بھی شیئریک کیا۔ اس دستاویز میں سونیا نے کہا تھا کہ ان کی مفتی غلام حسین سے شادی نہیں ہوئی تھی بلکہ دونوں کی آپس میں محض دوستی تھی جو غلام حسین کے قتل کا موجب بنی۔

جب اس حوالے سے جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مولوی حزب اللہ، جو مدعی بھی ہیں، سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا غلام حسین ان کے دوست تھے اور 17 اکتوبر کو عدالت میں سونیا اور ان کی والدہ نے جو بیانات دیے ہیں اس موقعے پر وہ خود بھی وہاں موجود تھے۔ حزب اللہ نے بتایا کہ اگر عدالت میں سونیا کی مفتی غلام حسین سے شادی کا بیان دروغ گوئی پر مبنی ہوتا تو متاثرہ لڑکی اپنے سسرال کے گھر نہ ہوتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب انڈپینڈنٹ اردو نے سونیا سے رابطہ کیا تو انہوں نے پولیس کے اس بیان کی تردید کی کہ وہ دارالامان میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی موجودہ رہائش اپنے سسرال میں ہےاور وہ اپنی عدت گزار رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں اور مفتی غلام حسین ان کے معلم تھے۔

’غلام حسین نے باقاعدہ طور پر میرے لیے رشتہ بھیجا تھا تاہم میرے والد کو یہ رشتہ منظور نہیں تھا۔ میرے مقتول شوہر پہلے سے شادی شدہ تھے۔ گھر والوں کو بتائے بغیر انہوں نے ساتھیوں کے ذریعے میرے والد سے میرا ہاتھ مانگا۔ میری ایک سوتیلی ماں ہیں وہ بھی اس رشتے سے راضی نہیں تھیں، نتیجتاً ہم دونوں نے چھپ کر شادی کر لی۔‘

35 سالہ مفتی غلام حسین پہلے سے شادی شدہ اور پانچ بچوں کے باپ تھے۔ انہوں نے رواں سال کے اوائل میں سونیا سے پسند کی شادی کی تھی جو ان کے خاندان کے مطابق کسی کے علم میں نہیں تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان