پاکستان میں خواجہ سراؤں کے لیے پہلا دینی مدرسہ

اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک خواجہ سرا نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا ہے جہاں صرف خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔

اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک خواجہ سرا نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا ہے جہاں صرف خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔

مدرسے کی سربراہ 34 سالہ خواجہ سرا رانی خان روزانہ تقریباً 25 خواجہ سراؤں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں۔

یہ دینی مدرسہ پاکستان کے ایک ایسے بنیاد پرست معاشرے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جہاں خواجہ سراؤں کو بڑے پیمانے پر معاشرتی تنہائی کا سامنا ہے۔

حالانکہ خواجہ سراؤں پر حکومت کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ دینی مدرسے میں تعلیم حاصل نہ کریں یا مسجد میں جا کر نماز ادا نہ کریں۔

رانی کہتی ہیں کہ ‘زیادہ تر خاندان خواجہ سراؤں کو قبول نہیں کرتے۔ وہ انہیں گھروں سے نکال دیتے ہیں جس کے بعد خواجہ سرا غلط حرکتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب میں بھی ان میں سے ایک تھی۔‘

رانی بتاتی ہیں کہ جب ان کی عمر 13 برس تھی تو ان کے خاندان نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ وہ 17 برس کی عمر میں خواجہ سراؤں کے ایک گروپ میں شامل ہو گئیں اور پیٹ بھرنے کے لیے شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں ڈانس کرنے لگیں۔

رانی کے مطابق انہوں نے فوت ہو جانے والے ایک خواجہ سرا دوست کو خواب میں دیکھا جو ان کے ساتھ ڈانس کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ برادری کے لیے کچھ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خواب دیکھنے کے بعد وہ دین کی طرف مائل ہوگئیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ انہوں نے قرآن کی تعلیم گھر میں حاصل کی تھی جس کے بعد وہ دینی مدرسوں میں گئیں اور گذشتہ اکتوبر میں دو کمروں پر مشتمل دینی مدرسہ قائم کرلیا۔

’میں مدرسے کے تمام اخراجات اپنی جیب سے پورے کر رہی ہوں۔‘ تاہم انہوں نے اخراجات کی تفصیل نہیں بتائی۔

رانی کو تھوڑے بہت عطیات ملتے ہیں اور وہ اپنی طالبات کو سلائی کا کام بھی سکھاتی ہیں۔ انہیں امید ہے وہ کپڑے فروخت کر کے مدرسے کے لیے رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً 10 ہزار ہے۔ اگرچہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

رانی اکثر نئی طالبات کی تلاش میں باہر جاتی ہیں جو بھیک مانگتی ہیں۔ دوسری جانب مدرسے کی طالبات کا کہنا ہے کہ دین سے وابستہ ہونے کے بعد انہیں سکون ملتا ہے۔

19 سالہ خواجہ سرا سمرن خان کے بقول قرآن کی تلاوت کرنے سے انہیں ذہنی سکون ملتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانی کے مطابق حکومت نے مدرسہ چلانے کے لیے ان کی کوئی مالی معاونت نہیں کی البتہ بعض سرکاری عہدے داروں نے خواجہ سراؤں کو ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ مستقبل میں مزید مدرسے کھول سکیں گی یا دوسرے خواجہ سراؤں کی حوصلہ افزائی کریں گی کہ وہ آگے آئیں اور مدرسے قائم کریں۔

رانی کہتی ہیں: ’میں خواجہ سرا ساتھیوں سے کہتی ہوں کہ جو میں نے کیا یہ کام وہ بھی کر سکتی ہیں۔ وہ بھی اچھی زندگی کے لیے آگے آ سکتی ہیں۔‘

دینی مدرسے کا افتتاح کرنے والے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے مدرسے کا قیام ایک بڑا قدم ہے جس سے انہیں عام تعلیم حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی تاکہ وہ دینی معاملے میں معاشرے کے قریب ہو سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا