’مجھے ووٹ نہ دینے والے ہندؤوں کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہے‘

حکمران جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے راگھویندر پرتاپ سنگھ کی سوشل میڈیا پر ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ ان ہندو ووٹرز کو دھمکیاں دیتے نظر آئے ہیں جو ان کی بجائے کسی اور جماعت کے حامی ہیں۔

یکم فروری 2022 کی اس تصویر میں بھارتیہ جنتا پارٹی  کی  ایک حامی  ضلع غازی آباد کے علاقے مودی نگر میں  اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ (تصویر میں  نظر نہیں آرہے) کی انتخابی مہم کے  سلسلے میں ایک جلسے میں پارٹی پرچم اٹھائے ہوئے ہے (فائل فوٹو: اےا یف پی)

بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی شمالی ریاست اتر پردیش کے انتخابات میں حصہ لینے والے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک سیاست دان کا کہنا ہے کہ انہیں ووٹ نہ دینے والے ہندوؤں کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہو گا۔

حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے راگھویندر پرتاپ سنگھ اتر پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں اور برازیل سے بھی زیادہ آبادی والی بھارتی ریاست میں ریاستی انتخابات کے لیے مہم چلا رہے تھے۔

پرتاب سنگھ نے اتوار کو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی اس ویڈیو میں دیے گئے اپنے بیان کی تردید نہیں کی، جس میں وہ ان ہندو ووٹرز کے خلاف دھمکیاں دیتے نظر آئے جو ان کی بجائے کسی اور جماعت کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ویڈیو میں پرتاب سنگھ نے کہا: ’مجھے بتائیں، کیا کوئی مسلمان مجھے ووٹ دے گا؟ اس لیے جان لیں کہ اگر اس گاؤں کے ہندو کسی دوسری جماعت کا ساتھ دیتے ہیں تو ان کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’وہ غدار ہیں۔ اتنے مظالم کے بعد بھی اگر کوئی ہندو دوسری جانب جاتا ہے تو اسے عوام میں اپنا چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘

بی جے پی کے رہنما نے ووٹرز کو دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’اگر اس انتباہ پر دھیان نہیں دیا گیا تو میں سب کو بتا دوں گا کہ راگھویندر سنگھ کون ہے۔ میں اپنی توہین اور دھوکہ دہی برداشت کر سکتا ہوں لیکن میں ان لوگوں کو تباہ کر دوں گا جو ہندو برادری کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

پرتاب سنگھ تین مارچ کو ریاست میں سات مرحلوں پر مشتمل انتخابات کے آخری مرحلے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس ریاست میں فرقہ وارانہ خطوط پر انتخابی مہم کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔

پرتاب سنگھ دائیں بازو کی ’ہندو یووا واہنی‘ تنظیم کے بھی انچارج ہیں جسے یوپی کے موجودہ ہندو قوم پرست وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2002 میں قائم کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوانوں کی اس تنظیم نے 2004، 2009 اور 2014 میں آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا، جب موجودہ ریاستی وزیر اعلیٰ بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مشرقی اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں ہندوتوا کے سیاسی پیغام اور  بھارت میں ہندو بالادستی کے نظریے کو پھیلایا۔

2017 کے انتخابات کے بعد ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس تنظیم کی یونٹس کو بی جے پی کی قیادت کے ان اندیشوں کے باعث منقطع کر دیا گیا کہ کہیں یہ متوازی سیاسی نظام نہ بنا لے۔

اس وقت کے ایک اور ویڈیو کلپ میں، جو آن لائن گردش کر رہا ہے، پرتاب سنگھ کی مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے عروج پر دیکھا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’مسلمانوں سن لو، اگر کسی ہندو کی توہین کی گئی اور اگر تم نے کسی ہندو لڑکی کی جانب نظر بھی اٹھائی تو میں تمہیں اتنا ماروں گا اور اتنی جگہوں سے کاٹوں گا کہ…‘ ان کی دھمکی کے باقی الفاظ ’جے شری رام‘ کے مذہبی نعروں کے درمیان گم ہو گئے۔

معرف بھارتی صحافی دیپک شرما نے پیر کو ایک ٹویٹ میں اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے پولیس کے ساتھ ساتھ بھارت کے الیکشن کمیشن سے بھی پرتاب سنگھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مقامی پولیس حکام نے اس ٹویٹ کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے سے واقف ہیں۔

بعد ازاں پیر ہی کو ان کے خلاف ڈومریا گنج پولیس سٹیشن میں مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور مجرمانہ دھمکی دینے کے لیے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔

دی انڈپینڈنٹ نے اس معاملے پر رائے کے لیے پرتاب سنگھ سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم مقامی انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک بیان میں پرتاب سنگھ نے تصدیق کی کہ ویڈیو حقیقی ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے الفاظ سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان گئے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’میرا کسی کو دھمکی دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ کیا کوئی بھی سیاست دان ڈومریا گنج میں دھمکی دے کر الیکشن جیت سکتا ہے جہاں تقریباً ایک لاکھ 73 ہزار مسلم ووٹرز ہیں جو رائے دہندگان کا تقریباً 39.8 فیصد ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا