’نکاح نامے میں ختمِ نبوت کی شق کا مقصد احمدیوں سے شادیاں روکنا ہے‘

منگل کو پنجاب کابینہ نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت ویسٹ  پاکستان رولز میں ترمیم کی منظوری دے دی اور کابینہ نے اس بات پربھی اتفاق کیا کہ نکاح نامے میں ختم نبوت کے حلف نامے کی شق شامل کی جائے

کابینہ نے اس بات پربھی اتفاق کیا کہ نکاح نامے میں ختم نبوت کے حلف نامے کی شق شامل کی جائے جس کے تحت نکاح کے وقت دلہا دلہن کو ختم نبوت پر ایمان کا حلف دینا ہو گا (تصویر: پکسا بے)

پنجاب میں ایک نئے قانون کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت نکاح سے قبل دلہا دلہن کو ختم نبوت پر ایمان کا حلف اٹھا کر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مسلمان ہیں۔

منگل کو پنجاب کابینہ نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت ویسٹ  پاکستان رولز میں ترمیم کی منظوری دے دی اور کابینہ نے اس بات پربھی اتفاق کیا کہ نکاح نامے میں ختم نبوت کے حلف نامے کی شق شامل کی جائے جس کے تحت نکاح کے وقت دلہا دلہن کو ختم نبوت پر ایمان کا حلف دینا ہو گا۔

اس قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس بارے میں پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آئین و قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں، لیکن ختم نبوت کے حلف نامے کی شق شامل کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ نکاح پنجاب مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت ہوتا ہے، اور مسلمان ہونے کا جو یقین ہے اس پر ہمیں یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ختم نبوت ہمارے مسلمان ہونے کے لیے ہمارے ایمان کا ایک اہم جزو ہے۔ اگر آپ نے اسلامی قوانین کے تحت نکاح کرنا ہے تو آپ نے نکاح نامے میں ثابت کرنا ہے کہ آپ مسلمان ہیں اور آپ اپنے یقین اور ایمان کے تمام تقاضے پورے کرتے ہیں۔‘

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خاص برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ محمد طاہر اشرفی نے پنجاب کابینہ کے اس فیصلے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس فیصلے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ مسلمانوں کا نکاح ’قادیانیوں‘ سے نہیں ہو سکتا۔ سینکڑوں ایسے واقعات ہیں جن میں قادیانی کمیونٹی کے لوگ مسلمان خواتین سے نکاح کر لیتے ہیں اور بتاتے نہیں کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ قادیانی ہیں تب مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ پھر خاتون کو چھوڑتے نہیں ہیں اور اگر بچے ہو جائیں تو مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے بہت سارے واقعات کی بنیاد پر صوبہ پنجاب نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے بہت سی خواتین بچ جائیں گی جبکہ اس شق کے شامل ہونے کا کوئی نقصان نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات تو بہت واضح ہے کہ مسلمان کا مسلمان سے نکاح ہو سکتا ہے یا اہلِ کتاب سے، لیکن ’قادیانیوں‘ سے نہیں ہو سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ باقی صوبوں کی مرضی ہے کہ اگر وہ بھی اس طرح کا کوئی اقدام کرنا چاہتے ہیں۔

حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ یہ صوبے کا ایک خوش آئند فیصلہ ہے کیونکہ اس سے بہت سے گھرانے اور بچیاں محفوظ ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا: ’اس فیصلے کا کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ اگر ایک قادیانی دوسرے قادیانی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو کرے یا وہ مسلمان کے علاوہ کسی اور مذہب میں نکاح کرنا چاہے تو کریں لیکن یہ حلف نامہ دھوکہ دہی سے محفوظ رکھے گا۔‘

تاہم انسانی حقوق کے کارکنان اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتے ہیں۔ انسانی حقوق کی کارکن سدرہ ہمایوں صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے حوالے سے کہتی ہیں: ’آج کے دور میں میں حکومت کے اس فیصلے کو بالکل بھی دانش مندانہ فیصلہ نہیں سمجھتی۔ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے اور کسی پر بھی اپنا مذہبی عقیدہ بتانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ ہر شخص نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے خالق کو جواب دینا ہے۔‘

سدرہ کے خیال میں مذہب کو مشکل بنانا یا اسے کسی خاص سوچ کے سانچے میں ڈھالنا ایک سوچی سمجھی غلطی ہے، اور اس غلطی سے اب ہمیں باہر آجانا چاہیے۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک اور خطوں میں تعصب کی فضا مستحکم اور حقیقی ہے۔ لیکن مذہب نہ ریاست کا مقصد ہونا چاہیے نہ ریاست کو اس کی فکر ہونی چاہیے۔ ملک میں رہنے والوں کے لیے ایک آزاد اور محفوظ فضا ہونی چاہیے۔‘

سدرہ کے خیال میں، ’صوبائی حکومت کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں حکومت ایسا کرے گی کیونکہ یہ فیصلہ ناقابل عمل ہے اور زبردستی لاگو نہیں کیا جا سکتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان