باجوڑ: انضمام کے بعد ایک نکاح رجسٹرار نے اپنا کام کیوں چھوڑا؟

خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد باجوڑ میں نکاح رجسٹرار اس کام سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔

روایت پسند معاشرے کے وجہ سے کوئی بھی شادی کو رجسٹرار نکاح خواں کے سامنے رجسٹر کروانے کو تیار نہیں: سرکاری عہدے دار(پکسا بے)

باجوڑ پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں واقعے ان سات ایجنسیوں میں سے ایک ہے جو 2018 میں قبائلی سے خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقے میں تبدیل ہوگئی۔

اس تبدیلی سے جہاں کئی معاملات میں فرق آیا وہیں باجوڑ میں نکاح کے معاملے بھی متاثر ہوئے اور مقامی نکاح خواں بھی محتاط ہو گئے۔

باجوڑ کے مولانا احمد نور فاٹا انضام سے قبل 2004 سے نکاح رجسٹرار تھے لیکن انہوں نے اب یہ کام چھوڑ دیا ہے۔

’اب میں یہ رجسٹریشن نہیں کرتا۔ ماضی میں اتنے مسائل نہیں ہوتے تھے۔ ’میں نے جتنے بھی نکاح رجسٹر کیے ان میں آج تک کوئی مسئلہ نہیں اۤیا لیکن اب اگر کم عمر کی شادی کا مسئلہ پیش آجائے یا کوئی اور مسئلہ تو عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں گے اور جیل بھی ہوسکتی ہے۔

’اس وجہ سے میں نے نکاح رجسٹر کرنے کا کام چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے 12 سال نکاح کے سٹامپ پیپر دستخط کیے لیکن کبھی کوئی مسئلہ پیش آیا نہ کسی نے کوئی شکایت کی۔

’اس وقت پولیٹیکل تحصیل دار میرے دستخط کے بعد نکاح نامہ سٹامپ پیپر پر دستخط کرتے لیکن زیادہ تر نکاح نامے بنوانے والے سرکاری ملازمین یا بیرون ملک سفر کرنے والے تھے۔‘

سفید ریش داڑھی، سر پر قراقلی ٹوپی (قائداعظم کیپ) پہننے والے مولانا احمد نور کے مطابق فاٹا انضمام سے قبل تقریباَ 700 سے 800 رجسٹریشن کی ہیں۔

’باجوڑ میں لوگ پہلے نکاح کرتے ہیں اور رجسٹریشن بعد میں ضرورتاً کرواتے ہیں جیسا کہ بیوی کا شناختی کارڈ بنانا ہو، پاسپورٹ، بیرون ملک سفر یا پھر سرکاری ملازمت۔‘

مولانا احمد نور کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام سے قبل نکاح رجسٹریشن کے دوران کم عمری کی شادی کا مسئلہ یوں نہیں تھا کہ اس وقت پولیٹیکل ایجنٹ کے طرف سے عمر کی کوئی شرائط یا قدعن نہیں تھی اور کوئی ایسا کیس بھی سامنے نہیں آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب طریقہ کار کافی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اب کم عمر کی شادی کا معاملہ ہونے پر تھانہ کچری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہںا وہ رجسٹریشن نہیں کرتے۔

’جہاں تک نکاح پڑھانے کا تعلق ہے تو ہم اب بھی نکاح پڑھاتے ہیں لیکن اس میں کوئی بھی رجسٹریشن نہیں ہوتی اور اب بھی وہی پرانا طریقہ کار چل رہا ہے کہ یہاں پر لوگ زبانی نکاح پڑھتے ہیں۔

’کوئی لکھائی نہیں ہوتی۔ نکاح کرنے والے میرے رشتہ دار یا قریبی دوست ہو تو پھر میں نکاح پڑھاتا ہوں کیونکہ ان کے بارے میں مجھے علم ہوتا ہے۔‘

ضلع باجوڑ کے 28 سالہ شمس خان (فرضی نام) نے ایک سال پہلی 15 سالہ لڑکی سے شادی کی۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کا شناختی کارڈ بنوایا تو نادرا نے شناختی کارڈ میں ’انڈر ایج‘ لکھ دیا۔ 

نادرا میں جو لوگ 18 سال سے کم عمر شادی شدہ لڑکی کا شناختی کارڈ بناتے ہیں تو کارڈ میں انڈر ایج لکھا جاتا ہے۔

شمس نے بتایا کہ ان کی بیوی ایف ایس سی میں پڑھ رہی ہیں اسی وجہ سے انہوں نے نادرا والوں کو صحیح عمر بتائی تاکہ آگے تعلیم کے حصول میں مسائل نہ آئیں۔

ان کے مطابق زیادہ تر لوگ بیوی کا کارڈ بنوانے کی وقت غلط عمر کا اندراج کرواتے ہیں اس وجہ سے کم عمری کی شادی معلوم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ریحان (فرضی نام) نے جب تین سال قبل شادی کی تو ان کی بیوی کے عمر 14 سال تھی۔ انہوں نے شادی کے ایک سال بعد جب بیوی کے شناختی کارڈ کے لیے درخواست دی تو ان سے نکاح نامے کے بارے میں پوچھا گیا۔

ریحان کے مطابق انہوں نے اس وقت 50 روپے کے سٹیمپ پیپر پر نکاح نامہ بنایا اور دو گواہوں، ایک مولوی اور تحصیلدار کے دستخط کے ساتھ نادرا کو جمع کرا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ یوں تین سال کم عمر ہونے کے باوجود ان کی بیوی کا شناختی کارڈ بن گیا۔

ضلعی انتظامیہ کی کیا پالیسی ہے؟

ضلعی انتظامیہ باجوڑ کے تحصیل دار بخت جہان کا کہنا تھا کہ وہ صرفِ نکاح کے سٹامپ پیپر پر دستخط کرتے ہیں جو زیادہ تر سرکاری نوکریوں کے لیے بنوائے جاتے ہیں۔

’نکاح نامہ رجسٹریشن کا ایک الگ طریقہ کار ہے جس میں نکاح رجسٹرار شادی کے دن لڑکا اور لڑکی دونوں کو ساتھ بٹھا کر کرواتے ہیں اور اس میں پھر عمر شناختی کارڈ کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔‘

بخت جہان نے بتایا کہ باجوڑ خیبرپختونخوا کا حصہ تو ہے لیکن اب بھی یہاں پر پرانا طریقہ کار چل رہا ہے جس میں لوگ اپنے علاقے کے مولوی سے نکاح پڑھواتے ہیں اور اس طریقہ کار میں کم عمری کی حد معلوم کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ روایت پسند معاشرے کے وجہ سے کوئی بھی شادی کو رجسٹرار نکاح خواں کے سامنے رجسٹر کروانے کو تیار نہیں۔

سماجی کارکن اور ایک دہائی سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے عمران ٹکر نے بتایا کہ کم عمری کی شادی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ غربت سمجھی جاتی ہے۔

’والدین عموماً غربت سے چھٹکارا پانے کے لیے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر کے ذمہ داری دوسرے خاندان والوں اور لڑکوں کی کم عمری میں شادی کر کے اسی لڑکے پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔‘

مولوی شمس الحق باجو‌ڑ کے سول کالونی کمپاؤنڈ کے اندر سرکاری مسجد میں پیش امام ہیں اور 2010 سے نکاح کے سٹامپ پیپر پر تصدیق کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ہی دستخط کرتے ہیں۔ ’اگر تصدیق کے لیے میاں بیوی کے شناختی کارڈ نہیں ہوتے تو پھر لڑکی کے والدین کا شناختی کارڈ مانگتے ہیں اور گواہان کے دستخط کے بعد دستخط کرتے ہیں لیکن یہ تصدیق کم عمری کی شادی کی نہیں بلکہ اس کی ہوتی ہے کہ آیا خاتون واقعی اس شخص کی بیوی ہے یا جھوٹ کہا جا رہا ہے۔‘

کم عمری کی شادی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مولوی شمس الحق نے بتایا کہ شرعی لحاظ سے عمر کی کوئی قید نہیں۔

مولانا شمس الحق نے بتایا کہ وہ دستخط کرنے کے بعد اپنے پاس ریکارڈ رکھنے کے لیے کوئی اندراج نہیں کرتے اور ابھی تک کوئی ایسا کیس نہیں اۤیا جس میں مسئلہ ہو۔

مولانا شمس الحق نے بتایا کہ فاٹا انضام کے بعد انہوں نے نکاح رجسٹرار کے لیے ڈپٹی کمشنر باجوڑ کو درخواست کی لیکن ابھی تک اس پر کوئی عملدراۤمد نہیں ہوا۔

عورت فاؤنڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ آیاز نے کم عمری کی شادی کی حوالے سے بتایا کہ شریعت کی احکامات تمام مسلمانوں کے لیے ہیں اور شریعت کے اصول سر اۤنکھوں پر لیکن پاکستان نے چائلڈ کنونشن پر دستخط کیے ہیں جس میں 18 سال کی بات کی گئی ہے۔

شبینہ نے بتایا کہ شادی کے لیے صرف جسمانی بلوغت ضروری نہیں بلکہ اس کو ذہنی طور پر بھی بالغ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنا اگلا گھر اچھے طریقے سے اۤباد کرسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارے ہاں شناختی کارڈ، ووٹ ڈالنے اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے 18 سال عمر کی شرط رکھی گئی ہے لیکن جب شادی کی عمر کی بات اۤتی ہے تو ہم اس میں خیال نہیں رکھتے۔‘

شبینہ کے مطابق حکومت کو ہر قانون کے اندر بچے کی شادی کی عمر 18 سال کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کم عمری کی شادی کا روک تھام نہیں ہوسکتی۔

’جب تک قانون کی مدد نہ ہو، عدالتیں اور پولیس اس معاملے کو کیسے روکیں گے کیونکہ کسی قانون میں 14 تو کسی میں 16 سال ہے۔‘

پاکستان میں رائج کم عمری کی شادیاں روکنے کا قانون ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929‘ کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جبکہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے۔

موجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے 29 اکتوبر، 2021 کو پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ شادی کے لیے لڑکی کی عمر 16 مقرر کرنے سے ان کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور یہ کہ لڑکیوں کی شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین