چائلڈ میرج بین،کم عمری کی شادی: اسلامی نظریاتی کونسل کے تحفظات

پنجاب میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف ویسے تو مختلف حلقوں کی جانب سےکئی بار معاملہ اٹھایا گیا لیکن تاحال مناسب روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی دیکھنے میں آئی اور نہ ہی اس حوالے سے نئی قانون سازی کی جا سکی۔

(فوٹو فائل)

پنجاب میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف ویسے تو مختلف حلقوں کی جانب سےکئی بار معاملہ اٹھایا گیا لیکن تاحال مناسب روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی دیکھنے میں آئی اور نہ ہی اس حوالے سے نئی قانون سازی کی جا سکی۔

اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے سیاسی اختلافات بھلا کر حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کی کئی خواتین اراکین پنجاب اسمبلی بھی میدان میں آئیں جن کا مطالبہ تھا کہ قانونی طور پر شادی کی عمر 16سال کی بجائے کم ازکم 18سال تک کی جائے۔

اسی طرح خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے 2015 میں بھی یہ معاملہ اٹھایاگیاتھا اور متعلقہ قانون میں ترمیم کے لیے بھی کوششیں کی گئی مگر تاحال اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ خواتین اراکین اسمبلی نے 2015 میں ایک ترمیمی بل بھی پیش کیا جو اب تک پاس نہیں ہوسکا۔

گزشتہ برس ایک نجی تنظیم کے تحت اس بارے میں دستخطی مہم شروع ہوئی جس میں 22ہزار سے زائد افراد نے اپنی تصدیقی دستخط دیے کہ لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18سال ہونی چاہیے۔

کم عمری کی شادی سے متعلق خواتین اراکین اسمبلی کی رائے:

پی ٹی آئی کی ایم پی اے سعدیہ سہیل نے کہا کہ چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادی ایک معاشرتی برائی ہے جس کا پنجاب سے ہر صورت میں خاتمہ ہوناچاہیے۔ ان کے خیال میں کم عمر بچیوں کی شادی کرنا نہ صرف ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ جذباتی طور پر بھی یہ ان سے ایک زیادتی ہے۔ کیوں کہ چھوٹی عمر میں بچہ پیدا کرنے سے وہ ماں کی ذمہ داری پوری کر سکتی ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داری اداکرنے کے قابل ہوتی ہیں۔

جب اس معاملے پر مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسمبلی بشری انجم بٹ سے بات کی گئی تو انہوں نے بھی کم عمری میں شادی کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے اس قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کیاجس میں لڑکیوں کے لیے عمر کی حد 16سال مقرر کی گئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادی کرنا ان کی آزادی سلب کرنے کے برابر ہے۔ ایسی روایات سے لڑکیاں نہ ہی تعلیم مکمل کرنے کا سوچ سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے بااختیارمحفوظ مستقبل کا فیصلہ کرنے کے قابل رہتی ہیں۔

ان کے مطابق لڑکیوں کو بچپن سے ہی یہ احساس دلایاجاتاہے کہ ان کا واحد مقصد صرف شادی ہے اور وہ شاید اسی لیے پیدا ہوئی ہیں۔ اس احساس سے ان کی ذہنی اور معاشرتی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔

ان کے بقول مسلم لیگ ن کی تمام خواتین اراکین اسمبلی کم عمری کی شادیوں کے خلاف ہیں اور اس معاملے پر قانون میں تبدیلی کے لیے اپنا بھرپور کردار اداکرنے کو تیار ہیں۔

پی ٹی آئی کی ایم پی اے عظمی کاردار نے کہاکہ قانون میں لڑکیوں کی عمر سولہ سے بڑھا کر اٹھارہ کرنی چاہیے اور اس پر عمل درآمد کے لیے دولہا اور دلہن کے لیے شناختی کارڈ کی شرط رکھی جائے تاکہ کم عمری میں شادی کے خواہش مند والدین بچیوں کی عمر چھپانہ سکیں۔

کم عمری کی شادیاں روکنے کے اقدامات:

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر صبیحہ شاہین نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ کو بتایاکہ ان کی تنظیم 2015سے اس ایشو کو اجاگر کر رہی ہے۔ معاشرتی طور پر آگاہی کے لیے دستخطی مہم انہی کی تنظیم کی جانب سے چلائی گئی تھی۔

صبیحہ کے مطابق پنجاب میں 1929میں لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 16سال مقرر کی گئی جسے چائلڈ میرج ریسرینٹ ایکٹ 1929کہاجاتاہے۔

ان کے خیال میں کم عمر لڑکیوں کو بطور بیوی، بہو یا ماں نہ اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے فرائض بہتر طریقے سے اداکر سکتی ہیں۔ گھریلو جھگڑوں اور خواتین پر تشدد کے بیشتر واقعات بھی ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے تحفظات:

کم عمری کی شادیوں سے متعلق جب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے اس معاملے پر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا۔

قبلہ ایاز کے مطابق انگریز دور 1929 میں لڑکیوں کے لیےشادی کی عمر کم از کم 16سال مقرر کی گئی تھی اس کے بعد 1961 میں ایوب دور کے دوران بھی اسمبلی میں اس پر قانون سازی ہوئی اس میں بھی کم از کم سولہ سال عمر کی حد برقراررکھی گئی مگر اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔

سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ خیبر پختونخوا، اندرون سندھ،پنجاب، بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں سے آئے روز اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ بارہ، تیرہ سال تک عمر کی بچیوں سے وڈیرے، جاگیردار، چودھری یا سردار زبردستی شادیاں کر لیتے ہیں یا انہیں اٹھوا لیتے ہیں۔

قبلہ ایاز نے کہا ہمیں اعتراض یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کو دیکھیں تو لڑکیوں کی شادی سے متعلق کوئی حد مقرر نہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں زمینی حقائق مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچی میٹرک پاس کرتی ہے اور اس کی عمر پندرہ سولہ سال ہے اور اس کا والد فوت ہوگیا، گھر میں کوئی مرد نہیں تو اس کی بیوہ ماں اگر زندہ ہے تو وہ معاشرے میں اکیلی بچیوں کے ساتھ رہنے میں عدم تحفظ محسوس کرتی ہے، تو وہ اپنی بچیوں کی شادی کم عمر میں ہی فوری کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا یہ کہ اگر کوئی غریب آدمی کسی علاقے کے بااثر لوگوں سے اپنی بچیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جلد شادی کرتا ہے تو اسے کیسے روکا جاسکتاہے؟

نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر قانونی طور پر کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر ہوگی تو وہ کیسے اپنی مشکل حل کر سکیں گے؟

قبلہ ایاز نے کہا کہ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ موجودہ معاشرتی صورتحال میں کم عمری کی شادیوں سے مسائل جنم لے رہے ہیں مگر اس کے لیے عوامی آگاہی ہی واحد حل ہے، تاکہ بلاوجہ یا بغیر کسی مجبوری کے، کم عمر میں لڑکیوں کی شادی سے والدین خود اجتناب کریں اور اس فعل کو معیوب سمجھیں، لیکن قانونی طور پر سب کے لیے یہ شرط لاگو کرنا مناسب نہیں۔

انہوں نے بتایاکہ پنجاب اسمبلی میں لڑکیوں کی شادی کی عمر سولہ سے بڑھا کر اٹھارہ سال کرنےکے لیے پیش ہونے والے بل پر بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات دیں وہاں بھی یہی موقف اپنایاکہ اس قانون کو تبدیل کرنے کی بجائے معاشرتی طور پر اس عمل کوروکنےکے اقدامات لازمی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان