اسرائیل کا حملوں کے بعد غزہ میں فائر بندی پر عمل درآمد دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان

اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے مبینہ ’حملوں اور دو فوجیوں کی ہلاکت‘ کے جواب میں حملے کیے جن میں 29 فلسطینی جان سے گئے تاہم اتوار کی شب اسرائیل نے فائر بندی پر دوبارہ عمل درآمد کا اعلان کیا۔

19 اکتوبر، 2025 کو وسطی غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ میں ایک عمارت کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملے کے بعد دھواں اٹھتا ہوا دیکھا گیا (اے ایف پی)

 اسرائیلی فوج نے اتوار کی شب غزہ میں کئی حملوں کے بعد فائر بندی پر عمل درآمد دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا: ’سیاسی قیادت کی ہدایت اور حماس کی خلاف ورزیوں کے جواب میں کیے گئے اہم حملوں کے بعد آئی ڈی ایف نے فائر بندی پر دوبارہ نفاذ کا آغاز کر دیا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’آئی ڈی ایف فائر بندی کے معاہدے کی پاسداری کرے گی اور کسی بھی خلاف ورزی پر سخت اور مؤثر جواب دے گی۔‘

اس سے قبل غزہ میں کمزور فائر بندی معاہدے کو اتوار کو پہلا بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب اسرائیل نے مبینہ طور پر اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت کے بعد غزہ کے لیے رفح سے امداد کی منتقلی ’آگلے نوٹس تک‘ روک دی۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو امداد کی بندش کے بارے میں بتایا تاہم اس بارے میں باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا۔

اس پیش رفت امریکی تجویز کردہ فائر بندی کے آغاز کے کچھ ہی دن بعد سامنے آئی جس کا مقصد دو سالہ جنگ ختم کرنا تھا۔

اسرائیل کی فوج نے اتوار کو بتایا کہ اس کے فوجی جنوبی غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بنے بعد میں اسرائیلی فوج نے بتایا کہ وہاں اس کے دو فوجی ہلاک ہوئے۔

اسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس کے جواب میں حماس کے کئی اہداف پر حملے کیے۔

ادھر فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اتوار کو ہونے والے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 29 فلسطینی جان سے گئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب حماس کا کہنا تھا کہ وہ فائر بندی پر قائم ہے اور اسرائیل اپنے حملے دوبارہ شروع کرنے کے لیے بہانے تراش رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے حماس پر ’فائر بندی کی خلاف ورزی‘ کا الزام لگاتے ہوئے سکیورٹی فورسز کو غزہ کی پٹی میں ’دہشت گرد اہداف‘ کے خلاف بھرپور کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والی اس فائر بندی سے دو سال سے جاری تباہ کن اسرائیلی جارحیت میں توقف آیا تھا۔

اس معاہدے میں قیدیوں کے تبادلے کا خاکہ طے کیا گیا اور غزہ کے مستقبل کے لیے ایک منصوبہ بھی پیش کیا گیا، لیکن اس پر عمل درآمد کے مسائل فوراً سامنے آئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’آج صبح دہشت گردوں نے رفح کے علاقے میں، جہاں فوج معاہدے کے تحت عسکری ڈھانچے کو تباہ کرنے کی کارروائی کر رہی تھی، اینٹی ٹینک میزائل داغے اور فائرنگ کی۔‘

فوج کے مطابق ’جوابی کارروائی میں فضائیہ نے جنگی طیاروں اور توپ خانے کے ذریعے رفح کے علاقے کو نشانہ بنایا۔‘

اسرائیلی فوج نے کہا کہ حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں میں متعدد حملے کیے جبکہ فلسطینی عینی شاہدین نے بتایا کہ رفح شہر میں جھڑپیں ہوئیں جہاں اسرائیلی فوج ابھی تک موجود ہے۔

ایک 38 سالہ مقامی شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کے جنگجو ایک مقامی فلسطینی گروہ ’ابو شباب‘ سے لڑ رہے تھے کہ اچانک اسرائیلی ٹینکوں کی موجودگی نے انہیں حیران کر دیا۔

ان کے مطابق ’فضائیہ نے اوپر سے دو حملے کیے۔‘

یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب وزیراعظم نتن یاہو حکومتی وزرا کے ساتھ اجلاس میں مصروف تھے۔ اجلاس کے بعد کچھ وزرا نے فلسطینی گروہ کے خلاف لڑائی دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

ادھر حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عزت الرشق نے ایک بیان میں فائر بندی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ’معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اپنے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے کمزور بہانے گھڑ رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حماس کے عسکری ونگ نے بھی کہا کہ گروہ فائر بندی پر قائم ہے اور اسے رفح میں جھڑپوں کی کوئی اطلاع نہیں۔

امریکی امن مندوب سٹیو وٹکوف اگلے ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جا سکے۔

ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تحت اسرائیلی افواج نام نہاد ’یلو لائن‘ کے پار واپس جا چکی ہیں جس سے انہیں غزہ کے بڑے شہروں کے علاوہ تقریباً نصف علاقے، بشمول سرحدوں پر کنٹرول حاصل ہے۔

حماس نے اب تک 20 قیدیوں کو زندہ واپس کیا ہے اور باقی مرنے والوں کی لاشیں واپس کرنے کا عمل جاری ہے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں اب تک کم از کم 68  ہزار 159 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

اتوار کو اسرائیل نے دو مزید لاشوں کی شناخت کی جب کہ اس نے آج 15 مزید فلسطینیوں کی لاشیں غزہ کے حوالے کیں، جس سے یہ تعداد 150 ہو گئی ہے۔

لاشوں کی واپسی کا معاملہ فائر بندی کے نفاذ میں ایک بڑا تنازع بن گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے رفح کراسنگ دوبارہ کھولنے کو تمام قیدیوں اور لاشوں کی واپسی سے مشروط کر دیا ہے۔

امدادی اداروں نے خوراک، ایندھن اور ادویات کی فراہمی تیز کرنے کے لیے رفح سرحد کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا